یہ 13 جولائی 1931کا واقعہ ہے ، جب نہ پاکستان وجود میں آیا تھا اور نہ پاکستانی فوج یا مجاہدین کشمیریوں کی پشت پناہی کر سکتے تھے ۔کشمیری اس روز تن تنہا تھے ،وہ بالکل نہتے تھے ،ان کے جسم و جاں میں ڈوگرہ سامراج سے آزادی کا جذبہ موجزن تھا،ان کا ایک بے گناہ ساتھی جیل میں بند سامراجی حکومت کے تشدد کا سامنا کر رہا تھا۔کشمیریوں کو اس کی بے بسی اور بے کسی کی فکر ہوئی تو وہ جیل کے باہر اکٹھے ہو گئے اور آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگے ،انہوںنے احتجاج کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا کہ جیل کے دروازے پر اذان دینا شروع کر دی ،ابھی پہلے شخص نے اللہ اکبر بھی نہیں کہا تھاکہ اس کو گولی مار کر شہید کردیا ۔کشمیریوں کے جذبے ٹھنڈے نہ پڑے ،دوسرے شخص نے اذان کا فریضہ ادا کر نا شروع کر دیا ۔ڈوگرہ راج کے سفاک فوجیوں نے اسے بھی گولی کا نشانہ بنا دیا اس طرح دیکھتے دیکھتے باری باری 21کشمیریوں نے شہادت کو تو گلے لگا لیا لیکن انہوں نے اذان مکمل کر لی ۔ریاستی دہشت گردی کی اس سے بد ترین مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔ آج 13 جولائی ہے ، پوری دنیا میں کشمیری حریت پسند اور ان سے ہمدردی رکھنے والے انسانی حقوق کے پاسدار بھرپور احتجاج کریں گے ۔یہ کشمیر کی تحریک آزادی کا آغاز تھا، تب سے اب تک بے گناہوں کا خون مسلسل بہایاجا رہا ہے ۔ کشمیر کی سرزمین کے افق پر ا سی سرخی کا رنگ غالب ہے۔یہ خون کشمیری نوجوانوں کی آنکھوں میں اتر آتا ہے تو وہ دیوانہ وار سامراجی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ ایک لاکھ سے زاید قبروں کے سرہانے شہیدوں کے نام کندہ ہیں۔کشمیر کا نوحہ کون لکھے گا اور شہیدوں کا شاہنامہ کون لکھے گا، اب تو ایسی جسارت کرنے والے کو عالمی سطح پر دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔بر صغیر سے انگریز رخصت ہونے لگا تو آزادی کے فارمولے میں طے کر دیا گیا تھا کہ مسلم آبادی کی اکثریت والے ملحقہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے مگر ایک بار پھر کشمیری مہاراجہ نے غداری اور بے اصولی کا ارتکاب کیا اور بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے جس پر عمل درا ٓمد کے لئے بھارتی فوجیں سری نگر اتر گئیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے قائد اعظم کی حکم عدولی کی تو قبائلی لشکر نے کشمیر میں موجود بھارتی لشکر کو للکارا، قریب تھا کہ وہ سری نگر ایئر پورٹ پر قابض ہو جاتے اور بھارت کی سپلائی لائن کاٹ کر رکھ دیتے کہ بھارت نے چالاکی اور عیاری سے سلامتی کونسل کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لئے جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو گئی مگر اس میں طے کیا گیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ایک آزادانہ، غیر جانبدارنہ استصواب کے ذریعے کیا جائے گا، وہ دن ، آج کا دن ، بھارت نے اس قرارداد پر عمل درا ٓمد کی نوبت نہیںآنے دی، اس نے جب کبھی ریاستی انتخابات کروائے تو یہ دعوی کر دیا کہ یہی استصواب ہے۔ دنیا نے اس کے ڈھونگ کو تسلیم کیا۔ پاکستان کی حکومتیں عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگرنے میں ناکام رہیں ۔
نائن الیون کے سانحے نے مسلم دنیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، کشمیر کی تحریک آزادی ہو ، چیچن مسلمانوں کی جدوجہد ہو، فلسطین کا سنگین مسئلہ ہو،مورو مسلمانوں کی طویل جنگ آزادی ہو،یہ سب کچھ دہشت گردی کے زمرے میں چلا گیا ۔نائن الیون کے بعد ایک صلیبی جنگ کا بگل بجا جس کا نشانہ بظاہر القاعدہ تھی لیکن اصل میں ساری مسلم دنیا اس کا ٹارگٹ بنی، غیر ملکی ایئر پورٹوں پر ہر ڈاڑھی والے کی شامت آ گئی، محمد اور احمد کے ناموں کی اسکریننگ کی جاتی اور انہیں خصوصی تفتیش کا نشانہ بنایا جاتا، عام مسلمانوں کو ہوائی اڈوں میں سر عام لباس اتارنے کا حکم دیا جاتا اور ذرا شک ہوتا تو جوتے تک اتروالئے جاتے۔امریکی اور اتحادی فوجوں نے افغانستان اور عراق پر قابض ہو کر بے گناہوں کا قتل عام کیا اور پاکستان کو ڈرون حملوں سے لے کر خود کش دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ نائن الیون میں کسی پاکستانی کا دور و نزدیک تک تعلق نہ تھا۔اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔
کشمیر میں آج بھی خون ناحق بہہ رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میںبھارتی فوجیں اس چھوٹی سی ریاست کے کونے کھدرے میں شب روز چھاپے مارتی ہیں اورجس کو چاہے گولیوں سے بھون دیتی ہیں۔یا خفیہ کوٹھڑیوں میں بند کر دیتی ہیں ، کشمیری قیادت پر جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔مسجدیں شہید کی جاتی ہیں ، مزاروں کو آگ دکھائی جاتی ہے، کھیتیوں پر بلڈوزر چلا دئے جاتے ہیں۔دکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ایک منظم سازش کے تحت نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دنیا تو ہٹلر کے ایک ہولو کاسٹ کو روتی ہے، کشمیر میںا ٓئے روز ہولوکاسٹ کا ہولناک منظر رونما ہوتا ہے۔کشمیریوں کی نوجوان نسل کو چن چن کر شہید کیا جاچکا ہے اور بھارتی استبداد کی کوشش ہے کہ دس بیس برس بعد کشمیر کا نام لیوا کوئی نہ ہو۔کیا ہم پاکستانی اپنے فرض کی ادائیگی میں سنجیدہ ہیں۔کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی بند شہید ہو رہے ہیں۔ ہم نے تو سندھ میں ایک مظلوم لڑکی کی پکار پر راجہ داہر کا قلع قمع کر دیا تھا، اب کشمیری خواتین ہر روزہمیں پکارتی ہیں ۔کیا ہم چپ سادھے بیٹھے رہیں گے ۔