حضرت ِقتیل شِفائی کی یاد یں

معزز قارئین! 11 جولائی کو پاکستان اور پاکستان سے باہر علم و ادب کی شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اپنی طرز کے منفرد شاعر اور دانشور حضرت قتیل شفائی کی23 ویںبرسی منائی۔ہوا یوں کہ” 11جولائی 2001ءکو مَیں صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے رکن کی حیثیت سے نئی دہلی میں تھا جب حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر (P.I.O) اشفاق احمد گوندل صاحب نے مجھے بتایا کہ ” قتیل شفائی صاحب خالق حقیقی سے جا ملے ہیں !“۔پھر یہ خبر نئی دہلی میں پاکستان کے "Media Center" میں حکومت پاکستان کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود گیلانی صاحب اور دوسرے اکابرین تک جا پہنچی۔ 
”تعلق خاطر !“
معزز قارئین ! میری جنابِ قتیل شفائی سے 1965ءمیں سرگودھا کے ایک مشاعرہ میں ملاقات ہوئی تھی اور جب 1971ءمیں ، مَیں نے لاہور میں ” نیم سیاسی “ اور ” نیم ادبی “ ہفت روزہ ” پنجاب “ جاری کِیاتو میرے دفتر سے کچھ فاصلے پر قتیل شفائی صاحب ” پاکستان رائٹرز گلڈ “ ( مغربی پاکستان) کے سیکرٹری کی حیثیت سے رونق افروز ہوتے تھے۔ پھر میری ان کی محبت بڑھتی گئی، ہمارا ایک دوسرے کے دفتر آنا جانا ہوتا گیا۔ اکثر قتیل صاحب اور انکے دوست رحیم گل اور مَیں میرے دفتر میں ایک دوسرے کے ساتھ دوپہر مناتے ، پھر ہفت روزہ ” پنجاب“ میں ” آدھا کالم قتیل شفائی کا “ کے عنوان سے ان کا ادبی اور فکاہی کالم شائع ہونے لگا۔ اچانک 1981ءسے میرے دوست ” بابائے گلاسگو “ (اور پھر ” بابائے امن“ ) ملک غلام ربانی ، قتیل شفائی صاحب سے میری دوستی کی تجدید کا باعث بن گئے۔ اکتوبر 1984ءمیں ان کے بیٹے عرفان ربانی کی شادی لاہور میں میاں محمد سعید (ڈیرے والے ) کی بھانجی ثمینہ سے ہوئی۔ لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ولیمہ تھا۔ گلاسگو میں بھی میری قتیل شفائی صاحب سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ 
دراصل قتیل شفائی صاحب کے دو بیٹے پرویز قتیل ، نوید قتیل اور ایک شادی شدہ بیٹی مسرت بھی گلاسگو میں "Settle" تھے۔ مسرت بی بی کے شوہر (رونق ِ محفل ) شوکت بٹ کا کئی سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ قتیل شفائی "Self-made" تھے ، انکے والد فیروز خان لاکھوں روپے چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوئے جو انکے رشتہ داروں نے ان کی والدہ سے ہتھیا لئے تھے “۔ قتیل صاحب کی عمر اس وقت صِرف 16 سال تھی۔ قتیل صاحب نے عملی زندگی کا آغاز ہری پور ہزارہ میں میونسپل کمیٹی کے محرّر کے طور پر کِیا۔ وہ 24 دسمبر 1919ءکو ہری پور ہزارہ ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انکے بزرگ اکوڑہ خٹک سے ہری پور آئے تھے۔ قتیل شفائی نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لِیا۔ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم سے قبل جلسوں میں اپنی نظمیں ترنم سے سناتے۔ پھر مولانا شوکت علی ، مولانا حامد بد ایوانی اور نواب بہادر یار جنگ کی تقریریں ہوتیں۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگیوں کی لوٹ مار سے قتیل صاحب بے حد دکھی ہوئے اور مسلم لیگ سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کرلِیا۔ قتیل صاحب کو حکومت پاکستان سے تمغہ حسن کارکردگی ملا لیکن ان کا پہلا اعزاز یہ تھا کہ ” انہوں نے پاکستان میں بننے والی پہلی فلم” تیری یاد“ میں گیت لکھے۔ پھر انہوں نے 250 سے زیادہ پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانے لکھے۔ بھارتی فلموں کے گیت لکھنے کا جواز پیش کرتے تھے۔جناب قتیل شفائی کے انتقال پر بھارت کے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں نے بھی از حد افسوس اور دکھ کا اظہار کِیا۔ نئی دہلی اور آگرہ کی مختلف تقاریب میں قتیل صاحب کا چرچا رہا۔ قتیل صاحب کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ، خاص طور پر ہندی میں۔ بھارت کی کئی یونیورسٹیوں میں قتیل شفائی کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی ہوتی ہے۔ 
قتیل صاحب کی 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ سب کی سب ان کے فلم لائن میں آنے کے بعد شائع ہوئیں ، وہ کہا کرتے تھے کہ ” یہ کمال ہے میرا کہ مَیں نے ہمیشہ ادب کو اہمیت دِی ہے ، جبکہ مجروح سلطان پوری ، ساحر لدھیانیوی، شکیل بدایونی ، جاں نثار اختر اور دوسرے فلمی شاعر فلمی دنیا ہی کے ہو کر رہ گئے تھے۔ مَیں فلمی شاعری کے بجائے ادبی شاعری کو اہمیت دیتا ہوں“۔ قتیل صاحب علاّمہ اقبال سے بہت متاثر ہوئے اور پھر احمد ندیم قاسمی صاحب سے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ” جب مَیں لاہور آیا تو زندگی میں نئے تجربات آئے اور نئے رنگ، جب مَیں نے اپنے تجربوں میں شاعری کی تو میرا الگ رنگ بنتا گیا“۔ قتیل صاحب کا منفرد رنگ ہی ان کی شہرت اور عزت کا باعث بنا۔
قتیل شفائی نے اپنی شاعری میں پسے ہوئے طبقوں کے دکھ درد کو موضوع بنایا اور خاص طور پر وہ عورت جو فلم سٹوڈیو میں موجود ہے وہ ایکڑ، ایکٹریس اور ہیروئن سبھی کو مظلوم سمجھتے تھے۔ وہ شاعر کو بھی مظلوم ہی سمجھتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ ” ہمارے ملک میں شاعر کا وہ مقام نہیں ہے جو دوسرے ملکوں میں ہے۔ دراصل ہمارے یہاں شاعر کا مقام بننے نہیں دِیا جاتا اور اِس کا حق خدمت پورا ادا نہیں کِیا جاتا“۔ قتیل شفائی غریبوں کے حق میں انقلاب برپا ہوتے دیکھنے کی خواہش لے کر چلے گئے ، اِس یقین کے ساتھ کہ ایک نہ ایک دِن یہاں قائد انقلاب پیدا ہوگا لیکن، اِس سے قبل بقول ان کے ، غریب کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوگا اور بالائی طبقہ کے لوگوں کے سر۔ 
 مارچ 2000ءمیں ان کا شعری مجموعہ ”گفتگو“ ساتویں بار شائع ہواتواپنے پروگرام کے مطابق وہ اسلام آباد تشریف لائے ، انفارمیشن گروپ کے سینئر رکن (موجودہ چیئرمین پیمرا) پروفیسر محمد سلیم بیگ انہیں میرے گھر لے آئے۔ مَیں نے بھی کئی دوستوں کو مدعو کرلِیا۔ قتیل شفائی صاحب نے مجھے اپنے دستخطوں سے ”گفتگو“ کے ایک نسخے سے نوازا اور اس میں لکھا تھا کہ ” پیارے اثر چوہان کے لئے ، محبت کے ساتھ۔ قتیل شفائی “۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ ”پروفیسر محمد سلیم بیگ کی تو بہت پہلے ہی سے قتیل صاحب سے نیاز مندی ( دوستی ) ہے“۔ ایک دِن پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ ، قتیل صاحب کو اور مجھے اپنے ساتھ مری کے سیر سپاٹے پر بھی لے گئے تھے۔ 
قتیل شفائی ایک کامیاب زندگی گزار کر اِس دارفانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے ہیں ، لیکن اپنی شاعری کے ذریعے ”اپنے لاکھوں چاہنے والوں سے ”گفتگو “کرتے رہیں گے ، جب تک سورج چاند رہے گا“۔

ای پیپر دی نیشن