بجلی کے بلوں نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا

ایک روز میری مہترانی مغموم سا چہرہ لئے گھر میں داخل ہوئی۔ میں نے نگا ہ اٹھا کر دیکھا چہرہ پیلازرد....وہ برسوں کی بیمار دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے افسردہ دیکھ کر پوچھا۔
کیا بات ہے؟
 وہ خاموشی کے ساتھ قالین پر بیٹھ گئی آنکھوں سے آنسو جن کو زبردستی ضبط کیا ہوا تھا بہہ جانے کو تیار تھے۔ میں نے حیرانگی سے دیکھا اور کہا۔ 
آنسو کا سیلاب بند توڑ کر راستے بناتا ہوا اس کے رخساروں پر پھیلنا شروع ہو گیا۔ ہچکیاں لیتے ہوئے بتانے لگی۔ 
ہم غریبوں کی کوئی زندگی ہے جس کا جی چاہے ہم پر ظلم ڈھادے میرا داماد بہت ظالم نکلا ہے اس نے میری بیٹی کو مار مار کرادھ موا کردیا ٹانگ کی ہڈی اور بازو کی ہڈی فریکچر ہوگئی تھی پھر میں اس کوہسپتال لے گئی۔ کسی سے ادھار مانگ کر پورے دس ہزار لگ گئے ڈاکٹر نے یہ کہا کہ غریب سمجھ کرزیادہ رقم نہیں لی وہ رو رو کر کہہ رہی تھی یہاں ایسا قانون کیوں نہیں پاس ہوا جو شوہر بلا وجہ غریب سمجھ کر اپنی بیویوں کو مار تے ہیں ان کو پولیس پکڑ کر جیل میں کیوں بند نہیں کرتی وہ زارو زار رو رہی تھی تو مجھے امریکہ کا ایک باغ یاد آگیا جس کی سیر کرنے کی تمنا تھی جب اپنی بیٹی کے گھر گئی تو ایک روز اس باغ کو دیکھنے کے لئے چلی گئی۔
 وہ امریکہ کے شہر کینٹ سکوئیر میں یہ گارڈدن تھا جس کا نام لونگ وڈ گارڈن ہے وہ میلوں پھیلا ہو ا گارڈن بہت خوبصورت ہے۔ لونگ وڈگارڈن کے مین گیٹ پر داخل ہوئی تو بڑی سی کورو ڈور سے گزر کر باغ کے گیٹ سے داخل ہو گئی وہاں ا س کی کورو دوڑ میں دن کے وقت شینڈلرجگمگا رہے تھے۔ دن اور رات کی تمیز مٹ گئی تھی۔ لوگوں کا ہجوم برپا تھا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ا س راہداری کو عبور کیا اور باغ کی حدود میں داخل ہو گئی بڑا سا گاردڈن میرے سامنے تھا جہاں حد نگاہ پھولوں، درختوں اور پودوں کا شمار نہیں تھا روشوں کے ساتھ ساتھ پام کے درخت دکھائی دئیے....چلتے چلتے ایک آبشار کے قریب رک گئی۔ جہاں اوپر سے پانی تالاب پر گرتا تو عجب قسم کی موسیقی سننے کو بھلی لگ رہی تھی آبشار کے اس پاس لوگوں کیلئے بینچ رکھے تھی کافی لوگ وہاں بیٹھے اس خوبصورت منظر کوانجوائے کر رہے تھے پھر آبشار سے آگے بڑھی تو بڑے بڑے ہال میں ہر ملک کا پودا تھا۔ 
 اس ہال میں پودوں کے مطابق کلائمیٹ (climate) کا انتظام تھا جہاں ٹھنڈے موسم کے پودے تھے وہاں ائیرکنڈنشن چل رہے تھے شیشوں کے دروازوں پر سارا باغ صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا کوئی ایسا پودا نہیں تھا جو نظر نا آیا ہو اس شہر کے لوگ کہتے تھے کہ یہ امریکہ کا سب سے بڑا باغ ہے ہال کے باہر میں ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔
 ایک امریکن لیڈی میرے قریب بیٹھ گئی اور بتانے لگی اس باغ کی آمدنی پر نہ صرف باغ کو مین ٹین(maintain) کیا جاتا ہے بلکہ دکھی انسانیت کے لئے بہت کام کئے جاتے ہیں یہ چھوٹے پیمانے سے کام شروع ہوا تھا اب بہت سے میمبرز اکھٹے ہو گئے ہیں اور وسیع پیمانے پر کام شروع ہو چکا ہے یہاں بھاری ٹکٹ خرید کر لوگ باغ کی سیر کرتے ہیں باقاعدہ ایک آفس بنا ہے جہاں میمبرزبیٹھ کر جو فنڈ اکھٹے ہوتے ہیں وہ سکول کے بچوں اور ان کی کتابیں، یونیفارم،ہیلتھ...بیمار لوگوں کی ادویات اور علاج کے علاوہ دیگر لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے ہیں۔ 
کینٹ سکوئیر کمیونٹی جہاں لڑکیاں جو سائنس اور ٹیکنولوجی پروگرام میں حصہ لیتی ہیں ان کے بارے میں غور وخوص کیا جاتا ہے اور ادویات کمیو نٹی کو مہیا کی جاتی ہیں اور کسی پر تشدت برداشت نہیں کرتے چاہے کسی بیوی پر شوہر تشدد کرے تو ایسا قانون پاس ہوا ہے کہ وہ شوہر جیل میں چلا جاتا ہے یہ ممبران اس قانون کے مطا بق سزائیں دلواتے ہیں۔
یہ بین ا لاقوامی پروجیکٹ میں بچوں کا تحفظ ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ میڈیسن سیریا (Syria) کو بھی بھیجا جاتا ہے تاکہ دوسر ے ملکوں کی مدد بھی ہوسکے پولیو سے نجات کیلئے انڈیا اور پاکستان میں ڈروپس بھیجے جاتے ہیں 
یہ سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی اورمیں اپنے ملک کے بارے میں سوچنے لگی کہ یہاں کیا ہوتا ہے کہ دوسروں ملکوں کی مدد کیا کرنی اپنے لوگوں کی ہی مدد کر لیں تو بڑی بات ہو گی۔
تقریبا اپنے ملک میں ہر شہری بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے اتنی مہنگائی میں بجلی کے بل بھوکے رہ کر ادا کرتا ہے جونئی ادا کرسکتا وسائل نہ ہونے کے سبب وہ پیٹ کا ایندھن بھریں یا بل ادا کریں...اسی لئے ۱وہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں..۔ زرا بھرغریب لوگوں کا خیال نہیں ہے کس مشکلات میں وہ جی رہے ہیں....اللہ نے رائی رائی کا حساب لینا ہے اس کا عذاب کس پر نازل ہو گا کبھی لوگوں نے یہ بات سوچی ہے۔
ہمارے ملک میں کوئی اچھا نظام نہیں ہے اور صاحب اقدار اچھی نیت سے لوگوں کے مسائل حل کریں تو بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچ سکتی ہیں بھوک اور ننگ کی وجہ سے خودکشیاں کرہے ہیں مہنگائی کا گراف اوپر سے اوپر ہورہا ہے۔ بجلی کی وجہ سے لوگ تراس تراس کر رہے ہیں ایک طرف غریب کے گھر ایک بلب جلتا ہے دوسری طرف بڑے بڑے گھروں میں سو سو بلب نمودو نمایش کیلئے جل رہے ہوتے ہیں اور سرکاری گھروں میں خوب بجلی استعمال کرتے ہیں کہ کونسا ہم نے بل دینا ہے آ جا کے غریب لوگ ہی پس رہے ہیں سچ تو کہتے ہیں غریب کی کوئی زندگی نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن