اب محسوس یہی ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اور یہ بیساکھیاں کسی بھی وقت چھینی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ بیساکھیاں چھن گئیں تو ملک میں ایک نیا سرکس شروع ہو جائے گا۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے پاکستان کے صدر اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور میں اپنے پارٹی ورکرز اور رہنماو¿ں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ سے حکومت نہیں چل رہی، ہم حکومت بنانا اور گرانا جانتے ہیں۔ اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کا ووٹ قومی اسمبلی میں ن لیگ کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ حکومت گھر چلی جائے گی، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صدر آصف علی زرداری یہ کوئی عوام کی محبت میں ن لیگ کی حکومت کو دھمکیاں نہیں دے رہے بلکہ اپنا حصہ بقدر جثہ مانگ رہے ہیں۔ لیکن یہ حکومت چلی بھی جائے تو پھر کون حکومت کرے گا کون نیا حکمران ہو گا۔ پھر یہی سیاست دان ہوں گے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہوں گے لیکن ملک کے مفاد کی کوئی بات نہیںکرےگا جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ مفادات کی لڑائی ہے اور پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ عوام کو نچوڑ کر کچھ اسے بھی اس مشروب سے پلایا جائے۔ اکیلی ن لیگ ہی سب کچھ نہ لے جائے۔ گزشتہ چھ سال سے نہ تو پی ٹی آئی حکومت کر سکی ہے، نہ ہی پی ڈی ایم کی حکومت چلی اور نہ اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیوں کہ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو بجٹ کے بعد عام آدمی کو درپیش ہے، عام آدمی کو اب یہ لالے پڑے ہوئے ہیںکہ وہ روٹی کھائے، کپڑے پہنے یا بجلی کے بل دے۔ کیوںکہ حکومت نے بجلی کے ٹیرف اتنے مہنگے کر دیئے ہیںکہ شاید اتنے مہنگے ٹیرف امریکہ میں بھی نہ ہوں گے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی بات کریں تو پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ کسی طرح ان کا لیڈر جیل سے باہر آجائے چاہے اس کیلئے ملک کو آگ لگانی پڑے، پاکستان مخالف قوتوں سے ہاتھ ملانا پڑے۔ ہر وہ کام پی ٹی آئی کر رہی ہے جس سے ملک دشمنی کا تاثر جھلکتا نظر آتا ہے۔ ایسے میں عوام مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کرن ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیوں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے لیڈروں رہنماو¿ںکو ملک سے بھی بڑا کر دیا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں ملک رہے یا نہ رہے لیکن ان کا لیڈر رہنا چاہئے۔ مسائل ہیں کہ دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مہنگائی نے غریب عوام کے کس بل نکال دیئے ہیں اور لوگ بجلی کے بل دینے کیلئے اپنے گردے تک بیچ رہے ہیں اور کچھ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن کہیں بھی کوئی مظاہرہ کسی لیڈر یا رہنما کے حق یا مخالفت پر نہیں ہو رہا۔ یہ مظاہرے مہنگائی پر ہو رہے ہیں اور لوگ حکومت سے ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے کیوں کہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر پیش کئے گئے بجٹ نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ اب لوگ مقتدر اداروںسے اور عسکری قیادت سے مطالبہ کر رہے ہیںکہ گر ملک نہیں رہے گا۔ خدانخواستہ تو کیا پھر ایکشن لیا جائے گا یا خانہ جنگی ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے کیوں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس تو ملک کے مسائل کا حل ہی موجود نہیں ہے یہ تو ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ ن لیگ انہیں کھلی چھوٹ دے وہ اپنی مرضی کا بندہ لگوانا چاہتے ہیں اپنی مرضی کے اضلاع میں تاکہ وہاں پی پی کھل کر کھیل سکے۔ لیکن اس سارے کھیل میں عوام کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ آج جو ملک کے حالات ہو چکے ہیں وہ سسٹم کو دوبارہ مارشل لاءکی جانب دھکیلتے نظر آ رہے ہیں کیوں کہ فوج ہی واحد ادارہ رہ جاتا ہے جس پر لوگوں کا ابھی بھی اعتمادقائم ہے۔ وگرنہ لوگ نہ تو کسی سیاسی پارٹی پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں اور وہ ملک کے مستقبل سے بھی مایوس ہو چکے ہیں اور اس ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ اب پاک فوج ہی ہے جو اس ملک کو سنبھال سکتی ہے کیوں کہ لوگوں کی اب بس ہو چکی ہے۔ ویسے بھی اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو جمہوری یا پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور کوئی بھی پارٹی نہ الیکشن کے نتائج کو مانتی ہے اور نہ ہی اپنے اندر جمہوریت لانے کو تیار ہے۔ اگر جمہوری پارٹیاں جمہوریت کا نام لے کر آمریت مسلط کر سکتی ہیں تو پھر ان سے تو فوج بھلی ہے اور دیکھا جائے تو پاکستان کے تقریبا تمام بڑے پراجیکٹس فوجی ادوار میں مکمل ہوئے ہیں، کوئی ایک ڈیم بھی جمہوری حکومت نہیں مکمل کر سکی، تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم نہ بنے ہوتے تو آج پاکستان کا آدھے سے زیادہ حصہ بجلی سے محروم ہوتا اور یہ دونوں ڈیمز ایوب خان دور میں مکمل ہوئے۔ اس لئے عوام کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں جمہوریت رہتی ہے یا پارلیمانی نظام یا کوئی فوجی حکمران۔ عوام کو غرض ہے کہ انہیں ضروریات زندگی ارزاں نرخوں پر مہیا ہوں اور وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ سکھ چین کی نیند سو سکیں۔ انہیں یہ فکر نہ ہو کہ بجلی کے بل بھرنے کیلئے انہیں اپنا تن بیچنا پڑے گا۔بقول شاعر مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے کے مصداق اب عوام کی ہمت جواب دے چکی ہے اور ہماری پاک فوج ہی واحد ایسی امید ہے جو ملک کو اس طوفان سے نکال سکتی ہے اور ملک کی کشتی کنارے پر لا سکتی ہے۔
امید کی آخری کرن !
Jul 13, 2024