مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ پر  سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ

Jul 13, 2024

اداریہ

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی 13 رکنی فل کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خواتین اور اقلیتیوں کی 77 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق پاکستان الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی دائر کردہ آئینی درخواست مسترد کرتے ہوئے متذکرہ فیصلے آئین کے منافی اور کالعدم قرار دے دیئے اور پاکستان تحریک انصاف کو ہدایت کی کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر اپنے نامزد ارکان کی فہرستیں دو ہفتے کے اندر اندر الیکشن کمیشن کو فراہم کر دے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے جمعة المبارک کے روز صادر کئے گئے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے جبکہ انتخابی نشان نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکتا۔ فاضل فل کورٹ نے یہ فیصلہ آٹھ‘ پانچ کی اکثریت سے صادر کیا۔ آٹھ فاضل ججوں نے جن میں جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر‘ جسٹس اطہرمن اللہ‘ جسٹس حسن اظہر رضوی‘ جسٹس عرفان سعادت خان‘ جسٹس عائشہ ملک‘ جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمدعلی مظہر شامل ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی درخواست منظور کی تاہم اس کا مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا حق تسلیم نہیں کیا اور یہ نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے کا حکم صادر کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ‘ جسٹس جمال خان مندوخیل‘ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا جس کی وجوہ مفصل فیصلے میں شامل کی جائیں گی۔ اسکے علاوہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ بھی فاضل فل کورٹ کے فیصلے میں شامل کیا ہے۔ اکثریتی فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔ 
پاکستان الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024ءکے انتخابات کے بعد متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں اس لئے الاٹ نہیں کی تھیں کہ اس نے بذات خود نہ انتخابات میں حصہ لیا نہ مخصوص نشستوں پر الاٹمنٹ کیلئے مقررہ میعاد میں الیکشن کمیشن کو اپنے نامزد امیدواروں کے نام بھجوائے۔ اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے اضافی مخصوص نشستیں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ جمعیت علماءاسلام (ف) اور انتخابات میں حصہ لینے والی دوسری جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے فارمولہ کے تحت الاٹ کر دیں جسے سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تاہم پشاور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ چنانچہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی گئیں۔ ان درخواستوں کی ابتدائی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے کی اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے یہ کیس چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ریفر کر دیا۔ 
اس کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کی 13 رکنی فل کورٹ 31 مئی کو تشکیل دی گئی جس نے اس کیس کی 9 سماعتیں کیں جو یوٹیوب سٹرانگ کے ذریعے براہ راست نشتر کی گئیں۔ فاضل فل کورٹ نے اس کیس کی سماعت مکمل کر کے 9 جولائی کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو گذشتہ روز جمعتہ المبارک کو صادر کیا گیا۔ سنی اتحاد کونسل نے جن 77 مخصوص نشستوں کی دوسری جماعتوں کو الاٹمنٹ چیلنج کی تھی ان میں قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔ اب عدالتِ عظمیٰ کی فل کورٹ کے فیصلہ کے مطابق یہ نشتیں پی ٹی آئی کو الاٹ ہوں گی جن میں سب سے زیادہ نشستیں پنجاب اسمبلی کی ہیں تو قومی اور پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحادی جماعتوں کی دو تہائی اکثریت لامحالہ سادہ اکثریت میں بدل جائے گی چنانچہ حکومت کو دوتہائی اکثریت کی متقاضی قانون سازی میں دقت پیش آئے گی۔
بدقسمتی سے ہمارا انتخابی سیاسی کلچر اس نہج میں ڈھل چکا ہے کہ کسی کی کامیابی اور اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول ہی نہیں کیا جاتا اور اودھم مچا کر پورے سسٹم کا مردہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کلچر میں ہمارے ریاستی انتظامی ادارے بھی باقاعدہ پارٹی بنے نظر آنے لگے چنانچہ ہمارا آج کا سیاسی منظر نامہ بھی بلیم گیم اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی سیاست میں جمہوریت کا مردہ ماضی کی طرح خراب کرنے پر منتج ہوتا نظر آرہا ہے۔ موجودہ سیاسی قضیے کی ابتداءعدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے اقتدار سے فارغ ہونے سے ہوئی تھی جب عمران خان نے محض اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے فوج‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ ریاستی‘ انتظامی اداروں اور انکی قیادتوں کو رگیدنا شروع کیا۔ اسکے نتیجہ میں پی ٹی آئی کیلئے انتخابی سیاست کے دروازے بند کرنے کی حکمت عملیوں کا آغاز ہوا اور پارٹی دستور کے تقاضے کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانا پی ٹی آئی کی قیادت کے گلے پڑ گیا۔ الیکشن کمیشن نے اسی جواز پر پی ٹی آئی کی بطور پارٹی رجسٹریشن منسوخ کردی اور اسے اسکے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا جبکہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ برقرار رکھا۔ پی ٹی آئی کے پاس اسکے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اتارے جبکہ الیکشن کمیشن نے ان امیدواروں کو بلے سے ملتا جلتا انتخابی نشان الاٹ کرنے سے بھی گریز کیا۔ 
اگر پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے سیاسی منافرت کو نہ بھڑکایا گیا ہوتا اور سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک نہ پہنچایا گیا ہوتا تو ممکن تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات نہ کرانے کے باوجود انتخابی نشان کیلئے پی ٹی آئی کو بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے اے این پی جیسی رعایت مل جاتی اور جرمانہ ادا کرنے کے عوض اسے اس کا انتخابی نشان مل جاتا تاہم اس پارٹی کی قیادت کی ریاستی اداروں سے ٹکراﺅمول لینے والی پالیسی نے اس پارٹی کو دیوار سے لگانے کے مواقع نکالے اور اسکے ساتھ نرم رویے والا عنصر غائب ہو گیا۔ البتہ اس پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی عوامی مقبولیت میں جارحانہ سیاست کی بنیاد پر مزید اضافہ ہو گیا اور عوام اس پارٹی کے نامزد آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ ڈالنے کیلئے جوق در جوق نکل آئے۔ اسی انتخابی عمل میں پی ٹی آئی کی جانب سے فارم 47 کا تنازعہ کھڑا کیا گیا جو ابھی تک ہمارے منتخب ایوانوں کے گلے پڑا ہوا ہے جبکہ عمران خان کا عوام کے درمیان واپس آنے کا خوف ہی انکے جیل سے باہر آنے کے راستے مسدود کر رہا ہے۔ 
پی ٹی آئی کے انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے اگرچہ آئین کے تقاضے کے تحت تکنیکی طور پر درست فیصلہ کیا تاہم اس فیصلہ سے عمران خان کی سیاست کو مہمیز ملی جس سے انکے ریاست کے ساتھ ٹکراﺅ کا پیغام مل رہا ہے تو انکی اقتدار میں واپسی کے راستے جائز ناجائز طریقے سے بند کرنا ریاستی اداروں کی بھی مجبوری بن گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے بے شک آئینی ابہام دور کرنے کیلئے آئین کی شارح مجاز اتھارٹی والا کردار ہی ادا کیا ہے تاہم اب یہ سیاسی اور آئینی تنازعہ بھی پیدا ہونے کا قومی امکان ہے کہ جس پارٹی نے بطور سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا‘ اسے مخصوص نشستوں کے کوٹے کا حقدار کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اب ایک نیا آئینی پنڈورا بکس کھلے گا اور سیاسی انتشار کی راہ مزید ہموار ہو گی جس کا نزلہ منتخب جمہوری نظام پر ہی گرنے کا احتمال ہے۔ اس کیلئے مختلف حلقوں میں قیاس آرائیوں اور ”فیلر“ چھوڑنے کا سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ بے شک سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخ ساز ہے مگر اس سے سسٹم کیخلاف ماورائے آئین اقدامات والی ماضی کی تاریخ دہرانے کا موقع نکل آیا تو اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ یہی ہماری قومی سیاسی قیادتوں سمیت تمام ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ذاتی سیاسی مفادات کی لڑائی کہیں ملک اور سسٹم کی سلامتی کے ہی درپے نہ ہو جائے۔ آئندہ چند دنوں تک پی ٹی آئی کی صفوں میں مبارکبادوں کی فضا چھٹے گی تو ہی اندازہ ہو پائے گا کہ پارلیمانی جمہوریت کیلئے مطلع صاف ہے یا گرد آلود طوفان کے جھکڑ چلنے کا امکان واضح ہوا ہے۔ البتہ قومی سیاسی قیادتیں چاہیں تو اپنے ذاتی سیاسی اختلافات سے باہر نکل کر باہمی افہام و تفہیم سے سسٹم کو بھنور سے نکال سکتی ہیں۔ خدا اس وطن عزیز کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے۔

مزیدخبریں