سپریم کورٹ کے فیصلے کو عزت دو، سینیٹ الیکشن کی حیثیت کیا؟؟؟؟

سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو عزت ملنی چاہیے، عدالتوں کے فیصلوں کی عزت اور ان پر عملدرآمد نہیں کریں گے تو معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے عوامی جذبات کی ترجمانی ہوئی ہے اور حقداروں کو ان کا حق ملا ہے، میرے خیال میں یہ آئین و قانون کی فتح ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ضرور تھا لیکن اعلی عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے پاکستان میں آئین اور قانون کی عملداری کے لیے مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر اہم فیصلوں میں متحد ہو کر آگے بڑھنا چاہیے، کسی کی سیاست یا کوئی سیاسی جماعت ملک کے مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ہے، نہ ہی کوئی ملک سے بڑا ہے اور نہ ہی کوئی ملک سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ سب کو مل کر اپنی اپنی حیثیت میں ملکی مفاد کی خاطر آگے بڑھنا ہے۔ آئینی و ریاستی اداروں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہی پائیدار استحکام کی ضمانت ہے۔ اس فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، حکومتی موقف یقینی طور پر اس فیصلے کی مخالفت ہی ہو گا لیکن جمہوریت ہمیں آئینی و ریاستی اداروں کے احترام کا ہی درس دیتی ہے۔ جہاں اس فیصلے سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا معاملہ حل ہوا ہے وہاں اس فیصلے کے بعد اب سینیٹ کے انتخابات بھی مشکوک ہو گئے ہیں۔ سینیٹ انتخابات پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عین ممکن ہے آنے والے دنوں میں سینیٹ کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ یہ سوالات بھی ہو رہے ہیں کہ کیا ملک میں موجودہ حکومت کو بھی خطرات ہیں۔ ایسی باتیں معنی نہیں رکھتیں جب آئین اور قانون کے ساتھ چلنا ہو تو ریاست نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آئین و قانون کی عملداری کی اہمیت زیادہ ہے یا پھر کسی حکومت کا قائم رہنا زیادہ اہم ہے۔ کیا ریاست کے لیے کوئی حکومت اہم ہے؟؟
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اظہر حسن رضوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین بھی بینچ کا حصہ تھے۔ سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر، اٹارنی جنرل منصور اعوان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی موجودگی میں فیصلہ سنایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا اور کہا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، انتخابی نشان کا نا ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور پی ٹی آئی قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اپیل کرے گی یا نہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق نظر ثانی پر اپنی رائے محفوظ رکھوں گا، اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نظر ثانی دائر کرنی ہے یا نہیں۔ بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کے لیے سب سے لازم یہی ہے کہ وہ اپنے مسائل پارلیمنٹ میں حل کریں۔ پارلیمنٹ کے کام عوام کے منتخب نمائندوں کو کرنے چاہییں۔ منتخب نمائندوں میں بہت اچھے اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ اگر یہ کرنا چاہیں تو بہت کچھ پارلیمنٹ میں بہت سے کام کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ہر روز کوئی نیا مسئلہ لے کر عدالت پہنچتی ہیں۔ کاش کہ پی ٹی آئی اراکین کو اس معاملے سے فائدہ ہوا ہے وہ اسے ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے استعمال کریں۔ نظام کو چلنے دیں، ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں۔ یقینی طور پر مخصوص نشستوں کے معاملے میں وکلا برادری بھی تقسیم ہو گی۔وہاں بھی اختلاف رائے ضرور رہے گا جیسا کہ ماہرِ قانون اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ عدالتی فیصلے سے قانونی ابہام دور ہونے کے بجائے اور بڑھ گیا ہے۔ کیس تو سارا سنی اتحاد کونسل کا تھا، مخصوص نشستوں پر دعویٰ بھی ان ہی کا تھا، عدالت کے سامنے پی ٹی آئی کا کیس ہی نہیں تھا۔ معاملہ پارلیمنٹ کی طرف جانا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے سے حکومتی اتحاد کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں نمبروں کا کھیل دلچسپ صورتحال اختیار کر گیا ہے اور تیئیس مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی اراکین کی تعداد ایک سو نو ہونے سے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بننے کا بھی امکان ہے۔
 اس وقت قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی تعداد دو سو نو ہے اس میں مسلم لیگ ن کے ایک سو آٹھ، پیپلز پارٹی کے اڑسٹھ، ایم کیو ایم کے اکیس، ارکان شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ کی پانچ، آئی پی پی کی چار، مسلم لیگ ضیا کی ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کی ایک اور نیشنل پارٹی کی بھی ایک نشست ہے۔ پی ٹی آئی کو عدالتی محاذ پر تو کامیابی ملی ہے لیکن باجوڑ کے ضمنی انتخاب میں اے این پی نے پاکستان تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے۔ پی ٹی آئی کو ہمیشہ کی طرح اندرونی طور پر مشکلات و مسائل کا سامنا ہے۔ شیر افضل مروت کی بنیادی رکنیت کے معاملے میں جو خبریں سامنے آ رہی ہیں ان پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ کہیں پی ٹی آئی میں کوئی فارورڈ بلاک ہی نہ بن جائے۔ اب یہ سیاست دانوں کے ضمیر کا بھی امتحان ہے۔ اگر کوئی فارورڈ بلاک بنتا ہے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہو سکتا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے اس فارورڈ بلاک کا دعویٰ تو کر دیا ہے اور انہوں نے اس کے لیے کچھ زیادہ وقت نہیں لیا۔ صرف پندرہ دن کی ہی تو بات ہے۔ اگر یہ بلاک بن گیا تو مزید تقسیم ہو گی۔ پی ٹی آئی کو ویسے بھی قیادت کے بحران کا سامنا ہے فارورڈ بلاک بننے سے مشکلات میں اضافہ ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بہرحال وقت کرے گا لیکن ہماری سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا یا کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنے گا۔ بہرحال حکومت کی طرف دیکھیں یا اپوزیشن کی طرف امتحان میں تو سیاسی قیادت ہے۔ کون کہاں کامیاب ہوتا ہے کہاں ناکام اب تو یہ دیکھنا باقی ہے۔ پاکستان کے کروڑوں لوگ تو اذیت میں زندگی گذار رہے ہیں اور کسی مسیحا کے منتظر بھی ہیں۔ کاش کہ جن کے نام پر سیاست ہوتی ہے کوئی ان کے لیے بھی سیاست کرے۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے 
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے 
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر 
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے 
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی  میں 
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے 
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے 
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گِلہ نہ کرے 
اگر وفا پہ بھروسہ رہے نہ دنیا کو 
تو کوئی شخص محبت کا حوصلہ نہ کرے 
بجھا دیا ہے نصیبوں نے میرے پیار کا چاند 
کوئی دیا مری پلکوں پہ اب جلا نہ کرے 
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے 
قتیل جان سے جائے پر التجا  نہ کرے

ای پیپر دی نیشن