اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دے کر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے۔ عدالت نے 13مئی کا الیکشن کمشن کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان سے محروم رکھ کر کسی پارٹی کو انتخابی عمل سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے آٹھ پانچ کے تناسب سے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا آرڈر کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا منتخب رکن قومی اسمبلی قرار دے دیا۔ باقی 41 ارکان 15 دن میں بیان حلفی جمع کرا کے پی ٹی آئی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ انتخابی نشان سے محرومی کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ عدالت نے اضافی مخصوص نشستوں پر انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمشن کو تحریک انصاف کی لسٹ کے مطابق مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ قرار دیا کہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کو وضاحت چاہئے تو عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ اکثریتی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا مکمل فیصلہ بحال رکھا اور سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ نوٹ میں آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا معاملہ الیکشن کمشن کو ریفر کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کیلئے پارلیمانی پارٹی نہ ماننے کی حد تک فیصلہ کالعدم کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کا اکثریتی تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کے فل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا مارچ2024ء کا فیصلہ آئین کیخلاف ہے،کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا 13مئی کا مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے، واضح کیا جاتا ہے انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کوانتخابات سے نہیں روکتا، تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں جیتیں، الیکشن کمشن نے عدالت میں 80 ایم این ایز کی فہرست پیش کی، 80کاغذات نامزدگی میں 39 امیدواروں نے خود کو پی ٹی آئی ڈیکلیئرکیا۔ فیصلہ کے مطابق یہ 39 امیدوار آرٹیکل 51 کے تحت پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، باقی 41 امیدوار اپنی جماعت سے متعلق حلف نامہ دیں، الیکشن کمشن 7 روز میں سیاسی جماعت کو نوٹس دے کہ وہ امیدوار کوکنفرم کرے، سیاسی جماعت 15 روز کے اندر اپنے امیدوار کو کنفرم کرے، ایسی کنفرم جیتی ہوئی نشست کو اس سیاسی جماعت کی سیٹ تصورکیا جائے گا، الیکشن کمیشن ان امیدواروں کی نشست کی فہرست ویب سائٹ پر 7روز میں آویزاں کرے۔ دوسری جانب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 5 ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے تحریک انصاف سے وابستگی کے حلف نامے جمع کرائے صرف انہیں تحریک انصاف کا امیدوار قرار دیا جائے اور پھر اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی انہوں نے عوامی خواہش کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔ اختلافی نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی مخصوص نشست کی کوئی فہرست دی، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ 2024کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں، آرٹیکل 51 کی ذیلی شق 3کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 336 ہیں، آئین نے خواتین اور اقلیتوں نشستوں کو بھی ضمانت دے رکھی ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں متناسب نمائندگی کے قانون کے تحت دی جاتی ہیں، ان نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ان کو پر کیا جانا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے۔