ان حالات مےں امرےکی وزےر خارجہ ہلیری کلنٹن کا اےڈمرل مائیک مولن کی معےت مےں اسلام آباد کا دورہ نہاےت اہمےت اختےار کر گےا تھا۔ بارے اس دورہ کی تنسےخ کی خبرےں بھی پرےس کو رےلےز کر دی جاتی تھےں تاکہ پاکستان پہ دباﺅ پورے طور پر استعمال کےا جا سکے۔ جب اس مقصد مےں کامےابی ہو گئی تو ےک لخت ہلیری کلنٹن کے اسلام آباد کے مختصر ترےن دورے کا اعلان کر دےا گےا۔ ےہ دورہ صبح ناشتہ کے بعد شروع ہوا اور دوپہر کے کھانے تک ختم ہو چکا تھا۔ اس دورہ کا مقصد دونوں ملکوں کی خفےہ تنظےموں آئی۔اےس۔آئی اور سی۔آئی۔ اے کے درمےان تعلقات کو کسی نہ کسی حد تک بحال کرنا تھا ۔ پاکستان مےں عمران خان کی جماعت تحرےک انصاف نے دھرنے دے دے کر دباﺅ قائم کےا ہوا تھا کہ اگر شمالی وزےرستان اور فاٹا کے علاقوں پر امرےکی ڈرون حملوں کا سلسلہ روکا نہ گےا تو تحرےک انصاف ان کا راستہ روکے گی۔ پہلے پشاور اور پھر کراچی مےں دھرنوں کی وجہ سے امرےکہ پر بھی کسی حد تک دباﺅ ضرور قائم ہوا ہو گا کہ اگر ڈرون حملوں کے مخالف لوگوں کی تعداد مےں اس تےزی سے اضافہ ہوتا رہا تو واقعی اےک مشکل صورت حال کا سامنا درپےش ہو سکتا ہے۔ لےکن ہلیری کلنٹن ، مائک مولن اور انکے وفد کی ملاقات اےوان صدر مےں صدر زرداری اور انکے وفد سے جس کےفےت مےں شروع ہوئی اس مےں کسی اےک کے چہرہ پر مسکراہٹ دور تک نظر نہےں آتی تھی۔ ہر طرف تناﺅ کا دور دورہ تھا۔ اےسا لگتا تھا کہ طرفےن کو سخت مشکل کا سامنا ہے اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا دونوں کےلئے آسان کام نہ تھا۔ مذاکرات کے بعد کوئی مشترکہ پرےس کانفرنس ےا کسی مشترکہ اعلامےہ کے اجرا کا نہ ہونا مذاکرات کے مشکل ہونے کا زبان حال سے اظہار کر رہا تھا۔ اےوان صدر سے فارغ ہو کر ہلبری کلنٹن سےدھی امرےکی سفارت خانہ گئےں، وہاں چےدہ چےدہ صحافےوں کے سوالات کے جواب دونوں مہمانوں نے دےئے۔ پاکستان کی طرف سے نہ کسی اخباری کانفرنس کا اہتمام کےا گےا نہ کوئی اعلامےہ جاری ہوا لہٰذا ہم پاکستانےوں کو بھی مذاکرات کی کامےابی ےا ناکامی کا اندازہ ہلیری کلنٹن کی امرےکی سفارتخانے مےں دی جانے والی کانفرنس ہی سے ہو سکا۔ہماری حکومت نے جو چپ سادھی تھی برقرار رہی۔
لےکن ہلیری کلنٹن نے جاتے جاتے اتنا ضرور کہہ دےا کہ امرےکہ ، افغانستان مےں طالبان کی القاعدہ سے علےحدگی چاہتا ہے۔ تاکہ وہ طالبان جو اسلحہ ترک کرکے القاعدہ سے تعلق ختم کرنے کےلئے تےار ہو جائےں ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کےا جا سکے۔ کلنٹن نے ےہ بھی کہا کہ امرےکہ اےک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے قےام مےں دلچسپی رکھتا ہے ۔ اےک اےسا افغانستان جو پڑوسےوں کےلئے خطرے کا باعث نہ بنے۔ پاکستان کی ذمہ داری ےہ ہے کہ وہ پاکستان سے جانے والے حملہ آوروں کا راستہ روکے۔ پاکستان سے ےہ تقاضہ کرنا قرےن انصاف نظر نہےں آتا۔ امرےکہ کی ڈےڑھ لاکھ سے اوپر فوج جو جدےد ترےن آلات حرب اور ٹےکنالوجی سے آراستہ ہے نےٹو افواج کی مدد کے باوجود ان حملہ آوروں کو روکنے مےں کامےاب نہےں ہو سکی تو اتنے طوےل اور پورس بارڈر مےں ےہ توقع رکھنا کہ پاکستان اےسا کر سکے گا کہاں تک ممکن ہے۔ پھر پاکستا ن کے اس مطالبہ کو صدر کرزئی نے تسلےم نہےں کےا کہ ڈےورنڈ لائن پر خاردار تار ےا اس قسم کی رکاوٹےں کھڑی کر دی جائیں۔ تاکہ غےر مطلوبہ افراد آسانی سے بارڈر کے آر پار آ جا نہ سکےں۔
جہاں تک امرےکہ اور پاکستان کی دوستی کا سوال ہے، ےہ ممکن نہےں۔ امرےکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، پاکستان کو امرےکہ کی۔ اسے آپ کوئی بھی نام دے دےجئے، دوستی نہ کہئے۔ دونوں ملک اپنی اپنی ضرورت پوری کرنے کی قےمت چکانے کو تےار ہےں۔ سےکرٹری کلنٹن کا ےہ کہنا درست ہے کہ امرےکہ پاکستان کے مسائل حل نہےں کر سکتا اور نہ اسے اےسا کرنا چاہئے۔ ےہ کام ہم پاکستانےوں ہی کا ہے اور انشاءاللہ ہم ہی پورا کرےں گے۔ ضرورت اےک قابل‘ دےانت دار محب وطن قےادت کی ہے جس کےلئے ہم ابھی ہاتھ پاﺅں مار رہے ہےں۔ جس دن ےہ مےسر آگئی۔ انشاءاللہ گرہےں کھلتی چلی جائےں گی۔ منزلےں آسان ہو جائےں گی اور دنےا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہ روک سکے گی وہ امرےکہ ہو‘ اسرائےل ہو‘ بھارت ہو ےا کوئی اور ملک ....
عقابی روح جب بےدار ہوتی ہے جوانوں مےں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں مےں
لےکن ہلیری کلنٹن نے جاتے جاتے اتنا ضرور کہہ دےا کہ امرےکہ ، افغانستان مےں طالبان کی القاعدہ سے علےحدگی چاہتا ہے۔ تاکہ وہ طالبان جو اسلحہ ترک کرکے القاعدہ سے تعلق ختم کرنے کےلئے تےار ہو جائےں ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کےا جا سکے۔ کلنٹن نے ےہ بھی کہا کہ امرےکہ اےک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے قےام مےں دلچسپی رکھتا ہے ۔ اےک اےسا افغانستان جو پڑوسےوں کےلئے خطرے کا باعث نہ بنے۔ پاکستان کی ذمہ داری ےہ ہے کہ وہ پاکستان سے جانے والے حملہ آوروں کا راستہ روکے۔ پاکستان سے ےہ تقاضہ کرنا قرےن انصاف نظر نہےں آتا۔ امرےکہ کی ڈےڑھ لاکھ سے اوپر فوج جو جدےد ترےن آلات حرب اور ٹےکنالوجی سے آراستہ ہے نےٹو افواج کی مدد کے باوجود ان حملہ آوروں کو روکنے مےں کامےاب نہےں ہو سکی تو اتنے طوےل اور پورس بارڈر مےں ےہ توقع رکھنا کہ پاکستان اےسا کر سکے گا کہاں تک ممکن ہے۔ پھر پاکستا ن کے اس مطالبہ کو صدر کرزئی نے تسلےم نہےں کےا کہ ڈےورنڈ لائن پر خاردار تار ےا اس قسم کی رکاوٹےں کھڑی کر دی جائیں۔ تاکہ غےر مطلوبہ افراد آسانی سے بارڈر کے آر پار آ جا نہ سکےں۔
جہاں تک امرےکہ اور پاکستان کی دوستی کا سوال ہے، ےہ ممکن نہےں۔ امرےکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، پاکستان کو امرےکہ کی۔ اسے آپ کوئی بھی نام دے دےجئے، دوستی نہ کہئے۔ دونوں ملک اپنی اپنی ضرورت پوری کرنے کی قےمت چکانے کو تےار ہےں۔ سےکرٹری کلنٹن کا ےہ کہنا درست ہے کہ امرےکہ پاکستان کے مسائل حل نہےں کر سکتا اور نہ اسے اےسا کرنا چاہئے۔ ےہ کام ہم پاکستانےوں ہی کا ہے اور انشاءاللہ ہم ہی پورا کرےں گے۔ ضرورت اےک قابل‘ دےانت دار محب وطن قےادت کی ہے جس کےلئے ہم ابھی ہاتھ پاﺅں مار رہے ہےں۔ جس دن ےہ مےسر آگئی۔ انشاءاللہ گرہےں کھلتی چلی جائےں گی۔ منزلےں آسان ہو جائےں گی اور دنےا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہ روک سکے گی وہ امرےکہ ہو‘ اسرائےل ہو‘ بھارت ہو ےا کوئی اور ملک ....
عقابی روح جب بےدار ہوتی ہے جوانوں مےں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں مےں