ابھی ملک رینجرز کے ہاتھوں سرفراز کے قتل پر سوگوار تھا کہ پشاور کے دھماکے میں 40 معصوم لوگوں کے چیتھڑے اُڑ گئے اور بہت سے زخمی تشویش ناک حالت میں ہیں۔ کوئی دن بُری خبر کے بغیر نہیں گزرتا۔ ایبٹ آباد اور مہران بیس کے حادثات کے بعد ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں کا سلسلہ باقاعدہ کسی گھنا¶نی سازش کا حصہ ہے پاکستان کے ساتھ ایک خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے جس میں عوام تو عوام ہمارے محافظ بھی محفوظ نہیں۔ دل بُجھ سا گیا ہے۔ گھر اُجڑ رہے ہیں، مائیں ماتم کناں ہیں۔ لوگوں کو امید کی موہوم سی کرن بھی نظر نہیں آ رہی مگر ایک دعا کہ اے خدا اِس تاریک رات میں کوئی ستارا ٹمٹائے۔ ایسے مواقع پر قوم کو سہارا دینا رہنما¶ں کا کام ہے مگر وہ اپنا اعتبار کھو چکے۔
نہیں نہیں ہمیں یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں نہیں کرنا، خدارا وقت کی نزاکت کو پہنچانئے، یہ وقت ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کو حوصلہ دینے اور زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔
ملک دشمن عناصر کے لئے یہ سنہرا موقع ہے کہ وہ ہمارے سب سے بڑے ادارے فوج پر ہر طرف سے حملہ آور ہیں۔ ہمارے نادان مگر محبوب لیڈر بھی اپنی پرانی رنجشیں دور کرنے کی بجائے معرکہ آرائی پر اُتر آئے ہیں۔ یہاں حکمت و و دانش کی ضرورت ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ”یا ملک بچا لیں یا فوج“ اِس زہر ناکی کا سبب ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں انشاءاللہ یہ فوج بھی رہے گی اور پیارا پاکستان بھی۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
دیکھا جائے تو فوج کی سوچ اور ایپروچ میں واقعی تبدیلی آ رہی ہے۔ پاکستانی عسکری قیادت نے پینٹاگون کو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر امریکی بوٹ نہیں چاہتے اور امریکی فوجیوں میں کمی کا فیصلہ واپس نہیں ہو گا۔ نواز شریف کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ حکمرانوں کو مزید مہلت دی گئی تو کچھ باقی نہیں بچے گا مثلاً سرفراز کی رینجرز کے ہاتھوں شہادت پر رحمن ملک اور وزیراعظم کا رویہ انتہائی شرمناک تھا۔ وہ قاتلوں کے گھنا¶نے جرم پر پردہ ڈال رہے تھے۔ ایبٹ آباد والا واقعہ ان کی ملی بھگت کا شاخشانہ تھا جو بقول وزیراعظم امریکیوں کی فتح عظیم تھی، ڈرون حملے ان کی طمانیت کا باعث ہیں، لوٹ مار اُن کا ٹریڈ مارک بن گیا ہے قوم پٹرول پمپوں پر ذلیل و رسوا ہو رہی ہے، کوئی بھی شخص لوڈشیڈنگ کے باعث پوری نیند نہیں سو سکتا۔ قوم ذہنی مریض اور چڑچڑا پن کا شکار ہو گئی ہے ساری بیماریوں کی جڑ کرپٹ حکمران ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ جاہل، اجڈ اور جعلی ڈگریوں والے ہیں۔ فوج تو امید کی آخری کرن ہے کہ ہر بُرے وقت میں اس کے جوانوں نے اپنی زندگیوں کو دا¶ پر لگا کر قوم کی خدمت کی، سیلاب کا حادثہ دور کی بات نہیں۔ امید ہے فوج اپنا محاسبہ خود کرے گی کہ یہی اس کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ اس ملک پر رحم کریں، اپنی موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کچھ دیر کے لئے رہنے دیں سب مل کر فوج کا حوصلہ بنیں اور ان کا مورال بلند کریں۔
نہیں نہیں ہمیں یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں نہیں کرنا، خدارا وقت کی نزاکت کو پہنچانئے، یہ وقت ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کو حوصلہ دینے اور زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔
ملک دشمن عناصر کے لئے یہ سنہرا موقع ہے کہ وہ ہمارے سب سے بڑے ادارے فوج پر ہر طرف سے حملہ آور ہیں۔ ہمارے نادان مگر محبوب لیڈر بھی اپنی پرانی رنجشیں دور کرنے کی بجائے معرکہ آرائی پر اُتر آئے ہیں۔ یہاں حکمت و و دانش کی ضرورت ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ”یا ملک بچا لیں یا فوج“ اِس زہر ناکی کا سبب ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں انشاءاللہ یہ فوج بھی رہے گی اور پیارا پاکستان بھی۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
دیکھا جائے تو فوج کی سوچ اور ایپروچ میں واقعی تبدیلی آ رہی ہے۔ پاکستانی عسکری قیادت نے پینٹاگون کو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر امریکی بوٹ نہیں چاہتے اور امریکی فوجیوں میں کمی کا فیصلہ واپس نہیں ہو گا۔ نواز شریف کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ حکمرانوں کو مزید مہلت دی گئی تو کچھ باقی نہیں بچے گا مثلاً سرفراز کی رینجرز کے ہاتھوں شہادت پر رحمن ملک اور وزیراعظم کا رویہ انتہائی شرمناک تھا۔ وہ قاتلوں کے گھنا¶نے جرم پر پردہ ڈال رہے تھے۔ ایبٹ آباد والا واقعہ ان کی ملی بھگت کا شاخشانہ تھا جو بقول وزیراعظم امریکیوں کی فتح عظیم تھی، ڈرون حملے ان کی طمانیت کا باعث ہیں، لوٹ مار اُن کا ٹریڈ مارک بن گیا ہے قوم پٹرول پمپوں پر ذلیل و رسوا ہو رہی ہے، کوئی بھی شخص لوڈشیڈنگ کے باعث پوری نیند نہیں سو سکتا۔ قوم ذہنی مریض اور چڑچڑا پن کا شکار ہو گئی ہے ساری بیماریوں کی جڑ کرپٹ حکمران ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ جاہل، اجڈ اور جعلی ڈگریوں والے ہیں۔ فوج تو امید کی آخری کرن ہے کہ ہر بُرے وقت میں اس کے جوانوں نے اپنی زندگیوں کو دا¶ پر لگا کر قوم کی خدمت کی، سیلاب کا حادثہ دور کی بات نہیں۔ امید ہے فوج اپنا محاسبہ خود کرے گی کہ یہی اس کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ اس ملک پر رحم کریں، اپنی موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کچھ دیر کے لئے رہنے دیں سب مل کر فوج کا حوصلہ بنیں اور ان کا مورال بلند کریں۔