ترکی کے شہر استنبول میں واقع تقسیم سکوائر میں حکومت کے خلاف جاری پرتشدد مظاہروں نے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے۔ ان مظاہروں کا آغاز 13 روز قبل 31 مئی کو اس وقت ہوا جب تقسیم سکوائر سے ملحقہ غازی پارک کے انہدام کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے تشدد کیا۔ اس کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ قومی دارالحکومت انقرہ تک پھیل گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک ان مظاہروں میں پانچ ہزار افراد زخمی اور تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہزاروں حکومت مخالف مظاہرین انقرہ کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لئے آنسوگیس اور پانی کا استعمال کیا ہے۔
علاوہ ازیں استنبول کے نواحی علاقے سلطان غازی میں بھی مظاہرین نے پولیس پر پٹرول بم پھینکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں مظاہرین کا تعلق زیادہ تر ترکی کی سیکولر جماعتوں سے ہے جو کہ اسلام پسند حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنما طیب اردگان کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جماعت گزشتہ گیارہ سالوں سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے کیونکہ اس نے 2007,2002 اور 2012ءکے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
59 سالہ طیب اردگان نے مظاہروں کو انتہا پسندوں کا خطاب دے کر ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ حکومت کی حمایت میںمظاہرے کریں۔ طیب اردگان نے انقرہ میں اپنے ہزاروں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جو لوگ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار کا احترام نہیں کرتے انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس کی جماعت نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے مگر اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کچھ تبصرہ نگاروں کے نزدیک ترکی کی حکمران جماعت میں اگلے سال کے مجوزہ صدارتی انتخابات کے باعث اختلافات موجود ہیں کیونکہ ترکی کے موجودہ صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان ان انتخابات میں صدر کے عہدہ کے امیدوار ہو سکتے ہیں تاہم ابھی تک دونوں میں سے کسی رہنما نے بھی ایسے کسی ارادے کا سرکاری طور پر اظہار نہیں کیا ہے۔ 62 سالہ صدر عبداللہ گل 2014ءمیں دوسری مدت کے لئے انتخابات کا امیدوار ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کئی سالوں سے ایک دوسرے کے سیاسی حلیف چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے اشتراکِ رائے سے اسلام پسند جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تشکیل دی تھی جس نے بعدازاں لگاتار تین مرتبہ قومی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
طیب اردگان نے اپنے دور اقتدار میں ترکی کو ایک مضبوط سیاسی اور معاشی علاقائی طاقت بنا دیا ہے۔ اس وقت ترکی کو 888 بلین ڈالر جی ڈی پی، 12900 ڈالر فی کس آمدنی 88.7 فیصد شرح خواندگی اور 115 بلین ڈالر برآمدات کے ساتھ بین الاقوامی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے۔ ایک معاشی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ترکی کا شمار دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ نیٹو کارکن ہے اور یورپی یونین میں شمولیت کے لئے کوشاں ہے۔ عالمی جنگ کے بعد ملک میں فوج اور سیاسی جماعتوں کے مابین اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی ہے مگر طیب اردگان کے دور میں فوج کی اہمیت میں گراں قدر کمی واقع ہوئی ہے اور کئی فوجی جرنیلوں کو عدالت کے کٹہرے میں بھی لایا گیا ہے۔
ہماری رائے میں طیب اردگان کو ترکی کے موجودہ مظاہروں کے حوالے سے حکمت عملی سے کام لینا چاہئے اور استنبول کے تقسیم سکوائر کے مظاہرین پر تشدد سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ غیر ملکی ترک مخالف قوتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ترکی میں اپنی پسند کی حکومت لا سکتے ہیں۔
ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ کچھ ممالک ایک بے مقصد مہم جوئی میں مصروف ہیں جس کا مقصد صرف اسلامی دنیا کو کمزور کرنا ہے۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا