یہ نوازشریف کی یہ تیسری حکومت ہے کہ جو ماضی کی دونوں حکومتوں کی طرح امریکی ڈرون پالیسی کے آگے گھٹنے ٹیک رہی ہے دونوں سابقہ حکومتوں کے ادوار میں امریکی ڈرون پالیسی کے خلاف عوامی سطح پر سخت مخالفت کے باوجود امریکی ڈرون پالیسی پر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ عالمی سطح پر امریکی ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جا چکا ہے۔ امریکی عسکری ادارے بدستور اپنی ڈرون پالیسی کو قانونی قرار دیتے ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان کے علاوہ لیبیا میں جو کردار ادا کیا ہے وہاں امن وامان مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ان ممالک میں امریکہ کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے یہ یہی صورت حال اب پاکستان میں ہے۔ عوامی سطح پر امریکہ کے خلاف سخت نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
امریکہ جو کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کو جواز بنا کر ڈرون حملوں کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے ان حالات میں آنے والے سالوں میں جب امریکی فوجیں اپنی اتحادی فوجوں کے ساتھ افغانستان سے نکل جائیں گی اور پھر 2015ءمیں افغانستان اور اسکے علاوہ اس خطے میں جو تبدیلی رونما ہو گی اس میں طالبان یا شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں کیا پالیسی اپنائی جائے گی اور افغانستان میں حکومتی ڈھانچہ کیا ہو گا خاص طور پر طالبان کے اثرورسوخ کو کس طرخ ختم کیا جائے گا اور خطے میں امن کس طرح لایا جائیگا۔ یہ وہ عوامل ہیں جن پر پاکستان ہی کو اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور دوسری جانب بھارت جو کہ اس وقت افغانستان میں امریکی پشت پناہی سے اپنا کردار برقرار رکھنے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو چکا ہے ان تمام حالات کو پاکستان کی داخلی صورتحال سے کسی طرح سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا جس کے اثرات امریکی ڈرون حملوں سے پاکستان کے اندرونی حالات پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے لئے پاکستان میں گوادر پورٹ پر چین کی موجودگی اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ ایران اور چین کی خطے میں دلچسپی اور پاکستان کے ساتھ قریبی روابط ہیں یہ عوامل یقیناً امریکہ کیلئے حیران کن ہیں۔
پاکستان کا ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ اور پھر چین کو بلوچستان میں گوادر پورٹ تک رسائی دونوں منصوبے پاکستان کی معیشت کے لئے انتہائی خوش آئند ہیں یہ خطے میں ایک نیا موڑ ہے جو کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مزید بڑھا گیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب خطے میں رونما ہونیوالی تبدیلیوں کی وجہ سے اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ یہ آزاد اور خودمختار ہو ۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں اس امر کی تائید کی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے اس خطے میں امریکی فوجوں کی حد سے زیادہ موجودگی کے باعث ہزاروں پاکستانیوں کا خون بہا اور گزشتہ 12 سال سے امریکہ کا تمام تر ہدف افغانستان نہیں پاکستان رہا ہے۔ اس سال پاکستان میں 12 ڈرون حملے ہو چکے ہیں جبکہ 2010ءمیں 130 حملے ہوئے تھے اس کے باوجود افغانیوں کو میدان جنگ میں نہ تو شکست دی جا سکی ہے اور نہ ہی انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جا سکا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اب امریکہ کو افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو کا کام انجام دینا چاہیے اور تباہ شدہ افغانستان کی تعمیر نو کے عمل میں پاکستان کو بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور امریکہ کو پاکستان کے ان بے گناہ شہریوں کا خون بہا بھی ادا کرنا چاہیے جو ڈرون حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے اسکے علاوہ پاکستان کو اس جنگ کی وجہ سے جو نقصانات برداشت کرنا پڑے انہیں پورا کرنا بھی امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی ذمہ داری ہے۔ ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی رو سے انسانی حقوق کی پامالی ہیں۔ اب پاکستان کی نئی جمہوری حکومت کو اس حساس معاملے پر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اس جنگ سے الگ ہونے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔
امریکی ڈرون حملے اور خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال
Jun 13, 2013