آج کے دورمیں جنگ معاشی ہوتی ہے ۔عمارات نہیں گرائی جاتیں بلکہ ملکوں کی معیشتیں گرا دی جاتی ہیں ۔ جو ممالک تباہ حال معیشت کیساتھ کھڑے ہیں ۔وہ مفتوح ہیں ۔فاتح لاشوں پر پاﺅں رکھ کر نہیں کھڑے ہوتے بلکہ معیشتوں کی گردن ان کے جوتوں کے نیچے ہوتی ہے ۔غلاموں کے پاﺅں میں نظر آنے والی بیڑیاں نہیں بلکہ سود در سود میں پھنسی غلامی کی نہ نظر آنیوالی اور نہ ختم ہونیوالی ایک لمبی زنجیر ہے جو غلامی کا زیور ہے ۔ جس کی بنا پرمفتوح ملک سر اٹھا کر جینے کی ہمت نہیں کر سکتے ۔ بیرونی قر ض ہے یا امداد ہے ، آپ دونوں صورتوں میں مفتوح بھی ہیں اور غلام بھی۔پاکستان کی معیشت تباہ حال ، بیرونی قرضوں اور امداد کے جال میں الجھی ہوئی ۔ اس میں نئی بات کوئی نہیں ، نئی بات یہ ہے کہ اب حکومت تاجروں کے ہاتھوں میں ہے۔(گو کہ یہ بھی کوئی ایسی نئی بات نہیں )اس دفعہ جب وزیرِ اعظم نواز شریف سے ترجیحات پوچھی گئیں تو انہوں نے تینوں دفعہ معیشت، معیشت اور معیشت کہا ۔پاکستان کے بجٹ کا بڑا حصہ ، ڈیفنس ، بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور امیروں وزیروں کے اللے تلوں میں چلا جاتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی اولین ترجیح معیشت بتانے والے ، ایک انڈسٹری سے ہزاروں انڈسٹریاں بنانے والے کامیاب بزنس مینز ،کیسے ان خرچوں کو کنڑول کرتے ہیں اورپاکستان کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتے ہیں ۔ مجھ جیسا اکنامکس کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بندہ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ آمدنی کے دو موٹے موٹے طریقے ہیں ، ایک ملک کے اندرسے پیسہ پیدا کیا جائے ، جس کا انحصار ٹیکس کولیکشن پر ہے دوسرا بیرونی تجارت کو فروغ دیا جائے ۔ ان دونوں طریقوں میں ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اگر کرپشن جس کا ایک حصہ اقربا پروری بھی ہے اس میں سے minusکر دیا جائے ۔ مگر کیسے ؟ ٹیکس کولیکشن کو فی الحال چھوڑتے ہیں ، پاکستان کے دوسرے ممالک کیساتھ تجارتی تعلقات اور روابط کو دیکھیں تو اس میں بھی نااہلیت اور نالائقی چھائی نظر آتی ہے ۔ پی پی پی کے دور میں آپ کے وزیرِ تجارت امین فہیم تھے ، ان کا ٹریڈ یا مارکیٹنگ سے تعلق کیا ؟ وزیرِ خزانہ ،وزیر ِ تجارت اور پھر فارن ٹریڈ آفیسرز یہ ایک ایسی ٹیم ہوتی ہے جو دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لئے کردار ادا کرتی ہے ۔ اور اگر اس میں ایسے لوگ سیاسی بھرتیوں کے نام پر دھڑا دھڑ بھر دیئے جائیں تو کہاں International competencyکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ مجتبی شجاع الرحمن کا نام نئے وزیرِ خزانہ پنجاب کے طور پر پڑھا تو ایک ٹھنڈی آہ کے علاوہ منہ سے کچھ اور نہ نکل سکا،کینڈا کے تجارت کے ، خزانہ کے وزیر اسی فیلڈ میں ڈگریاں،تجربہ لئے ہوتے ہیں مگر ہمارے پنجاب کے نئے وزیرِ خزانہ میڑک ہیں یا ایف ہیں ۔تو بتائیے کہاں سے پاکستان کی معشیت ٹھیک ہوگی ؟ جس بندے کے پاس فنانس کی،مارکیٹنگ کی نہ ڈگری نہ تجربہ وہ کہاں سے معیشت کیلئے نئے نئے حل لائے گا ۔دنیا بھر معاشی بحران کی لپیٹ میں تھی، گورنر بنک آف کینڈا Mark Carney کی وجہ سے کینڈا اس بحران میں سے نکلنے والا پہلا ملک تھا ، انگلینڈ نے اسی شخص کو hireکیا کہ آﺅ اور آکر ہماری معیشت بھی ٹھیک کردو ۔یہ ہے اپنی مٹی کے ساتھ خلوص ، حکمرانوں کی پہلی کوشش جہاں سے بھی قابلیت ملے اسے اپنے ملک کو بچانے ، سنوارنے ، سجانے اور دنیا کی دوڑ میں شامل کرنے میں لگا دو ، ہمارے ملک کی بدقسمتی کے اپنے خاندان ، اپنے دوستوں کے ساتھ خلوص کی انتہا کے ملک کو انہیں خوش اور خوشخال کرنے کیلئے داﺅ پر لگا دو ۔یہ مجتبی صاحب پہلے اسی میڑک ایف اے ڈگری کے ساتھ انہی صاحبان کے دور میں وزیرِ تعلیم بھی رہ چکے ہیں ۔ اسحاق ڈار پاکستان کے سب سے بڑے کامرس کالج ہیلی کالج کے تعلیم یافتہ ( میرے کالج فیلو )،وزیرِ خزانہ بننے کے سو فی صد اہل مگر 28مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد فارن کرنسی اکا ﺅنٹ فریز کرنے کے مجرم ،امید ہے اب وہ ایسے اقدام کریں گے جو بیرونی سرمایہ کاری کا پاکستان میں اعتماد بحال کر سکیں ۔ وزیرِ خارجہ کی کرسی ابھی تک نواز شریف کے پاس ، امید ہے کہ کوئی اہل ڈھونڈ لیا جائے گا ،اگر مریم نواز اس کر سی پر آتی ہیں تو لوگ حنا ربانی کی دلکشی کو ذیادہ مس نہیں کرینگے ، باقی تو پھر رہے نام اللہ کا ، کام تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔میں کینڈا میں بیٹھ کر پاکستان کینڈا ٹریڈ کو دیکھتی ہوں تو کڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی ۔ کینڈا رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ، آبادی تین کروڑ ، جس کا ایک فی صد پاکستانی مہاجر یعنی تین لاکھ ، ان پاکستانیوں کی فی کس آمدنی باون ہزار ڈالر ، یعنی کینڈا کے اندر پاکستانیوں کی ایک بڑی consumer marketموجود ہے ، جو پاکستانی مصنوعات کو استعمال کر سکتی ہیں ۔مگر عدم دستیابی کی وجہ سے انڈیا کی چیزوں سے اس ضرورت کوپورا کر رہی ہے ۔ اگر یہاں پر پاکستانی سفارتکاروں کے اندر مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے قابل ٹریڈ آفیسر بیٹھے ہوں جن کو مارکیٹنگ اور ٹریڈ کا تجربہ ہو تو کچھ فتوحات ہم حاصل کریں ۔پاکستانی چاول ، دالیں ، مصالحہ جات ،سبزیاں ، پھل ( آم ، امرود،فالسے خصوصی طور پر ) ،کاٹن کی مصنوعات اور معدنیات ۔ ان کی پروڈکشن ، سٹوریج ،ڈلیوری سٹم ان سب کا معیار بہتر بنا کر کینڈا کے اندر ایک بڑی مارکیٹ پیدا کی جاسکتی ہے اور بہت سا زرِ مبادلہ صرف کینڈا میں ِ مقیم پاکستانیوں کی ضرورت کو پورا کر کے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کینڈا سے پاکستان پی آئی اے ، اتحاد ائیر ویز ، گلف اور Emiratesکی پوری بھری ہوئی پروازیں ایک ہفتے میں تین جاتی ہیں۔پاکستان کے حصے کا وہ پیسہ جو اتحاد ، گلف اور ایمرٹس لیکر جارہا ہے ، پاکستان مزید پروازیں چلا کر یہاں سے بھی پیسہ باہر جانے سے روک سکتا ہے ۔ کینڈا میں حبیب بنک کے علاوہ اور کوئی پاکستان کا بنک نہیں ، یہاں مزید پاکستانی بنک بنائے جاسکتے ہیں ٹورزم اور فارن انوسٹر کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ملک میں امن اور انصاف لانا ہوگا ۔ کینڈا کی فارن سروس کی گورنمنٹ کی ویب سائٹ پر کینڈین شہریوں کو پاکستان جانے کیلئے وارننگ اور سکیورٹی الرٹ دیا گیا ہے ۔کینڈا تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ بزنس کے فروغ کیلئے مستعدی کے ساتھ کام کر رہا ہے ، جس میں انڈیا ، جاپان ، اور یورپین یونین ہے ، پاکستان میں قدرتی طور پر اتنے وسائل سے مالا مال ہے کہ وہ بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتا ہے ، اگر ٹریڈ مشن کو ہی یہ لوگ فیشن شو ، ہلے گلے اور شاپنگ کا ذریعہ نہ سمجھ لیں ۔ پچھلے سال پاکستان نے تین ٹریڈ مشن کینڈا میں کئے ، مگر کوئی نتیجہ نہیں ۔ ایک میں شرمیلا فاروقی صاحبہ بھی تھیں اسکے بعد ان مشن کی سنجیدگی کا اندازہ خود ہی لگا لیں ۔ ریکوڈک کمپنی کینڈا نے بلوچستان سے سستے داموں معدنیات خریدنے کی کوشش کی ،زرداری صاحب کے زیرِ سایہ حکومتی سطخ پر یہ کام ہونے جارہا تھا ، سپریم کورٹ نے اس ڈیل کو nullقرار دیدیا کیونکہ اس سے پاکستان کو نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی ذات کو فائدہ ہو رہا تھا ۔ٹورنٹو اس وقت ٹریڈ کا مرکز ہے ، چالیس سال پہلے مانٹریال تھا ،پاکستان کی کتابیں ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہوئیں ، ان کا ٹریڈ آفیسر مانٹریال میں ہی بیٹھا ہے ، ایک وینکور میں ہے ۔ ٹریڈ آفیسر مانٹریال کا بھی حال سن لیں :عذرا جمالی ( ظفر اللہ جمالی کی بھانجی ) ، جمالی صاحب کے دور میںسیکشن آفیسر سے کمرشل سیکرٹری مقر ر ہوگئیں ،اور آجکل مانٹریال میں گریڈ 19 سے 20 میں ترقی پا کر راج فرما رہی ہیں ۔کیا ٹریڈ ہورہی ہے کس نے کرنی ہے کون جانے ؟ کینڈا کے وزیر ِ تجارت Ed Fast نے کہا انڈیا کے ساتھ تجارت کو مزید فروغ دینا میری ترجیحات میں سے ایک ہے ۔۔ یہ دن پاکستان کی معیشت میں بھی آسکتا ہے اگر کم از کم ایسی تقرریاں میرٹ اور قابلیت پر ہونے لگ جائیں ۔ ورنہ تو یہ ملک پاکستان آپ کا فیملی بزنس ہے ، جس شاہی خاندان کے ہاتھ آئے اسے نوچے کھسوٹے اپنے بنک اور اپنے پیٹ بھر کر نعرہ مار دے "حکومت کا خزانہ خالی ہے"۔ اور ہاتھ لگا کرنورا کشتی کے اگلے ریسلر کے حوالے کر دے کہ آ پہلوان اب تو پھینٹی لگا ، تیری باری ۔