پنجاب حکومت کا نیا بلدیاتی نظام؟

قومی اسمبلی کے گیارہ اور پنجاب اسمبلی کے22حلقوں پرمشتمل سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کو وفاقی کابینہ میںتو سردست کوئی نمائندگی نہےں ملی البتہ پنجاب کی 21رکنی کابینہ میں رانا ثناءاللہ خاں سمیت اقلیتی رکن طاہر خلیل سندھو کو صوبائی وزارتیں مل گئی ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق رانا ثناءاللہ کو پنجاب کے سینئر وزیر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ گزشتہ دور میںوہ پنجاب کے وزیر قانون و پارلیمانی امور تھے اور اس مرتبہ وہ وزیر بلدیات مقرر ہوئے ہیں اور وزارت قانون اور پارلیمانی امور کاان کے پاس اضافی چارج ہوگا۔ ان کا بلدیاتی وزیر مقرر کیاجانابجائے خود اس بات کی علامت ہے کہ اس مرتبہ حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے میں سنجیدہ ہے اور چونکہ حکومت پنجاب ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکی کہ وہ ماضی کے دونوں فوجی آمروں کے دیئے گئے بلدیاتی آرڈیننسوں میں سے کس کے تحت بلدیاتی الیکشن کرانا پسند کرے گی یاان میں سے کسی کو بھی بلدیاتی الیکشن کے لئے روبہ عمل نہیں لاتی۔ایک بات تویقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت جنرل مشرف کے بلدیاتی آرڈیننس 2001ءکو اس حد تک بھی ہاتھ نہیں لگائے گی کہ اس کی بعض اچھی باتیں ہی نئے بلدیاتی نظام میں شامل کرلے۔ اس ملک کو ایک بلدیاتی نظام صدر ایوب خان نے بھی دیاتھا اگر ان کے بنیادی جمہورتوں کے نظام سے ”الیکٹورل کالج“ کے اختیارات حذف کرکے اس نظام کو چاروں صوبوں میں بحال کردیاجائے تو یہ جنرل محمد ضیاءالحق کے1979 کے بلدیاتی آرڈیننس اورجنرل مشرف کے2001کے بلدیاتی آرڈیننس ‘ دونوں بلدیاتی انتظامی ڈھانچوں سے بہتر انتظامی ڈھانچے کاآئینہ دار ہوگا۔ الیکشن 2013کی آمد کے ساتھ ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کااہم عہدہ حاصل کرنے کیلئے حکومت سے نکلنے کا حتمی اعلان کردیا اور اپوزیشن کے بنچوں پرآگئی۔ ان دنوں ایم کیو ایم نے حکمران پیپلزپارٹی سے اپنے شدید سیاسی اختلاف کے اظہار کیلئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی گورنرشپ سے استعفیٰ صدر کو بھجوادیااور خود استعفیٰ منظور ہونے تک چھٹی لے کر دوبئی چلے گئے۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے دوہرے بلدیاتی نظام پرمشتمل ایم کیو ایم کے دباﺅپر منظور کئے گئے۔ بلدیاتی آرڈیننس کو قائم قام گورنر نثار کھوڑو کے ذریعے منسوخ کرادیا۔ ایم کیو ایم شہری علاقوں میں کمشنری نظام نہیں چاہتی تھی جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے لئے کمشنری نظام منظور ہوجانے کے بعد سندھ کے عوام کی طرف شہروں میں بھی کمشنری نظام قائم کرنے کامطالبہ زور پکڑگیاتھا۔ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی طرف سے اب بھی پیشکش موجود ہے لیکن ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کاکردار اداکرنے کافیصلہ کیاہے۔ اگر سندھ حکومت دوہرے بلدیاتی نظام کے آرڈیننس کو دوبارہ قبول کرنے کی گرنٹی دے تو ایم کیو ایم سندھ میں پیپلزپارٹی کی شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔ ایم کیو ایم قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن میں ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کراچی میں آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ اور وہاں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کاخاتمہ چاہتے ہیں اسی لئے وہ ایم کیو ایم کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے ۔خیبر پی کے کی حکومت اکتوبر میں صوبے میں بلدیاتی الیکشن کرانے کااعلان کرچکی ہے ۔ وہ بھی یقیناً جنرل مشرف کے 2001کے بلدیاتی آر ڈیننس سے فائدہ نہیں اٹھائے گی ۔ پنجاب حکومت کانیا بلدیاتی نظام کیاہوگا۔ اس کیلئے عام خیال یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے ڈویژنل کمشنر کے تحت رکھے جائیں گے تاکہ صوبائی حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اپنے ماتحت رکھ سکے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر نہیں کروائے گی۔ رانا ثناءاللہ کویقینا بہت سوچ سمجھ کر صوبائی وزیر بلدیات کاقلمدان سونپا گیاہے ۔ وہ پنجاب بھر میں بلدیاتی نمائندے منتخب ہونے والوں کو مسلم لیگ ن کی حمایت کیلئے ہموار کرسکیں گے۔ اس سے پہلے فیصل آباد کے چوہدری طالب حسین بھی صوبائی وزیر بلدیاتی رہ چکے ہیں۔ ان دنوں ملک غلام مصطفی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ موجودہ پنجاب کابینہ فیصل آباد کے بھاری بھرکم ارکان صوبائی اسمبلی خواجہ محمد اسلام‘ ملک محمدنوازاور سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری محمدافضل ساہی تو اپنی اپنی شیروانیاں زیب تن کرکے منصب و وزارت کاحلف سے محروم رہے ہیں البتہ اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی خلیل طاہر سندھو کو اقلیتی امور کی صوبائی وزارت مل جانے سے صوبائی کابینہ میں سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کی نمائندگی تو ہوگئی ہے۔ فیصل آباد سے تین خواتین ڈاکٹر نجمہ افضل‘ میڈم کنیز اسحاق اور مدیحہ رانا ‘ خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور اگر صوبائی کابینہ میں کسی وقت اضافہ ہوا تو ڈاکٹر نجمہ افضل کی لاٹری بھی نکل سکتی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے حلقوں میں یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ این اے83 کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں عبدالمنان کے مقابلہ میں تحریک انصاف کی طرف سے فیض اللہ کموکا کے بجائے راجہ نادر پرویز کو لایاجاسکتاہے۔ اس سلسلہ میں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت فیض اللہ کموکا کو رضا مند کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ گماں کیاجاتاہے کہ فیض اللہ کموکا اس یقین دہانی پر کہ مستقبل میں جب کبھی اس حلقہ سے الیکشن ہوئے پارٹی ٹکٹ ان کودیاجائے گا۔ ضمنی الیکشن میں راجہ نادر پرویز کوآگے لانے کا سگنل دے سکتے ہیں تاہم دعا ہے کہ وزیر بلدیات رانا ثناءاللہ بنے ہیں تو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات پرامن ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...