امریکی ڈرون طیاروں نے 6 ماہ کے وقفے کے بعد 2014ء میں پہلی کارروائی کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں 6 گھنٹے کے دوران 2 ڈرون حملے کئے جس سے 16 افراد جاں بحق ہو گئے۔ پہلا حملہ درگاہ منڈی کے علاقے میں ہوا جہاں ایک گاڑی اور گھر پر 2 میزائل فائر کئے گئے جبکہ رات گئے ڈانڈے درپہ خیل کے علاقہ میں 5 ڈرون طیاروں نے 4 گھروں پر 8 میزائل داغے۔ حملوں کے بعد علاقے میں ڈرون طیاروں کی پروازوں سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چار ازبک جنگجو اور دو پنجابی طالبان شامل ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہے اور جب بھی ملک میں امن کی کوششیں ہوتی ہیں امریکہ حملہ کر دیتا ہے‘ حکومت کو ڈرون حملے کے بعد امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق‘ لیاقت بلوچ، جے یوآئی (ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمن‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق‘ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد‘ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف خان کھوسہ‘ سنی تحریک کے قائد ثروت اعجاز قادری نے بھی امریکہ ڈرون حملے کو ملک کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ کی حکومت ملک سے ڈرون حملوں کے مکمل خاتمے کا دعویٰ کر رہی ہے مگر امریکہ نے ایک بار پھر ڈرون حملہ کر کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔
ان ڈرون حملوں کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی مذمت سامنے آئی ہے جس میں روایتی الفاظ استعمال کئے گئے جس طرح کے مشرف اور بعدازاں پیپلزپارٹی کے دور میں استعمال ہوتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں تو یہ بھی کہا جاتا تھا کہ حکومت نے امریکہ سے کہہ رکھا ہے کہ آپ اپنی کارروائی جاری رکھیں‘ ہم عوام کو مطمئن رکھنے کیلئے مذمت کردیا کرینگے۔ یہ افواہ نہیں‘ حقیقت تھی کیونکہ ڈرون تو اڑتے ہی پاکستان کی حدود سے تھے‘ آج گو ڈرون پاکستان سے نہیں اڑتے کیونکہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں‘ جن میں 24 فوجی شہید ہوگئے تھے‘ کے بعد حکومت نے فوج کے دبائو پر شدید اور حقیقی احتجاج کیا‘ نیٹو سپلائی بند کر دی اور امریکہ کو ڈرونز کا سیٹ اپ پاکستان سے منتقل کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ امریکہ کو نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے بڑے پاپڑ بیلنا پڑے اور اسکے بعد ڈرون حملوں اور اس پر حکومت کی طرف سے روایتی احتجاج کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا جو چھ ماہ کے وقفے کے بعد آج تک جاری ہے۔ یہ ڈرون حملے پارلیمنٹ کی دومرتبہ کی مشترکہ قراردادوں کے باوجود جاری رہے۔
مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ڈرون حملوں پر امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہے جبکہ مشرف گزشتہ سال واپس پاکستان آئے تو انہوں نے معاہدے کی تصدیق کی۔ امریکی ڈرون حملوں میں امریکہ کو مطلوب کئی شدت پسند مارے گئے‘ ایسے لوگوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جو پاک فوج کیخلاف برسر پیکار تھے۔ بے گناہ افراد بھی ڈرون حملوں کی زد میں آئے‘ اسکے سبب دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اسی لئے ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے دہشت گردی میں اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ڈرون حملوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔ عموماً ڈرون حملوں اور پاک فوج کا فاٹا کے شورش زدہ علاقوں میں ٹارگٹ ایک ہی ہے۔ گزشتہ روز ڈرون حملوں میں چار ازبک مارے گئے۔ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردی میں ازبک بھی ملوث تھے‘ جس میں 30 سکیورٹی اہلکار اور سویلین شہید ہوئے۔ پاک فوج نے گزشتہ روز وادی تیراہ میں جٹ طیاروں سے بمباری کرکے 25 شدت پسندوں کو ہلاک کیا۔ اس سے قبل ٹارگٹڈ اپریشن میں سرجیکل سٹرائیکس کیلئے پاک فوج نے ڈرون بھی استعمال کئے اس لئے شدت پسندوں کیخلاف پاک فوج کے موثر اقدامات کی موجودگی میں امریکی ڈرون حملوں کا کوئی جواز نہیں نکلتا جبکہ یہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت پر حملے سے تعبیر کئے جاتے ہیں۔کچھ حلقوں کی طرف سے ڈرون حملوں کی یہ کہہ کر حمایت کی جاتی ہے کہ ڈرونز اور پاک فوج کا ٹارگٹ ایک ہی ہے۔ دہشت گردوں سے کسی کو ہمدردی نہیں‘ لیکن پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے‘ ڈرونز کی طرف سے پاکستانی حدود میں داخلے کو پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے بجا طور پر خلاف سمجھا جاتا ہے‘ پھر ان سے معصوم لوگ بھی مرتے ہیں تو اس پر شدید ردعمل ہوتا ہے اور دہشت گردوں سے لوگ انکی سفاکیت کے باوجود ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا تو اس نے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کالعدم تحریک طالبان اور حکومت کی طرف سے پیشکشوں اور جوابی پیشکشوں کے بعد مذاکراتی عمل شروع ہوا‘ مذاکرات کیلئے طالبان کا سب سے بڑا مطالبہ ڈرون حملوں کی بندش تھا۔ یہ مطالبہ پورا کرنا حکومت کے اختیار میں تو نہیں تھا‘ البتہ حکومت کی بار بار کی درخواست پر امریکہ نے گزشتہ سال دسمبر میں ڈرون حملے روک دیئے۔ اب چونکہ مذاکرات کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے‘ تو ہو سکتا ہے کہ حکام کی طرف سے امریکہ کو پھر Go ahead کا سگنل دے دیا گیا ہو۔
قوم کیلئے بیرونی حملے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں‘ ان سے جہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہیں مقامی حکومت اور امریکہ سے عوامی نفرت بھی بڑھ رہی ہے۔ پاک فوج دہشت گردوں کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ ان کیخلاف فضائیہ استعمال کی جاتی ہے اور پاکستان نے ڈرون بھی تیار کرلئے ہیں۔ امریکہ جس انٹیلی جنس کی بنیاد پر حملے کرتا ہے‘ وہ پاک فوج کے ساتھ شیئر کرے۔ پاک فوج ان اطلاعات کی بنیاد پر خود کارروائی کریگی تو جہاں حکومت پر دہشت گردی کی حمایت کا تصور ختم ہو گا‘ وہیں اہداف کی تکمیل پر دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ بھی ہموار ہو گی۔ اس طرح پاکستان حکومت اور خود امریکہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پیدا ہونیوالی عوامی نفرت سے بچ جائیگا۔ یہی نفرت کسی مرحلے پر غیظ و غضب میں بدل سکتی ہے اس لئے حکومت ہرصورت امریکی ڈرون حملے روکنے کا چارہ کرے۔