سینٹ : حکومتی ارکان نے بجٹ بحث کا بائیکاٹ کر دیا‘ اپوزیشن منانے پہنچ گئی

اسلام آباد (نامہ نگار + ایجنسیاں) سینٹ میں حکومتی ارکان نے بجٹ بحث کا بائیکاٹ کردیا، قائم مقام چیئرمین سینٹ نے سینیٹر سیف اللہ مگسی کی تحریک استحقاق کو استحقاق کمیٹی کو بھجوایا جس پر حکومتی ارکان نے سخت احتجاج کرتے ہوئے موقف اپنایا رولز کو فالو نہیں کیا گیا۔ قائم مقام چیئرمین اور حکومتی ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ کی زیر صدارت شروع ہوا تو سینیٹر سیف اللہ مگسی نے تحریک استحقاق پیش کی کہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ لاجز کے دورے کے دوران ان کی گاڑی پارکنگ ایریا سے لفٹر نے اٹھا لی جس پر وزیراعظم کے سکیورٹی سٹاف اور پولیس اہلکاروں سے گاڑی بارے دریافت کیا تو ان کا رویہ تضحیک آمیز تھا، یہ شاہانہ انداز ہیں جیسے کوئی شہنشاہ دورے پر آگیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین نے سیف اللہ مگسی سے کہا کہ اگر کوئی پولیس اہلکار کوئی کام کرتا ہے تو وزیر اعظم کو پتہ نہیں ہوتا کہ آپکی گاڑی کہاں لے گئے، ڈپٹی چیئرمین نے معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھجوا دیا جس پر قائد ایوان سینیٹ نے ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ سے کہا کہ یہ معاملہ آپ نے کیسے استحقاق کمیٹی کو بھجوا دیا ہے، ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا، رولز کو فالو کیا جائے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، آپکا آفس پورے ایوان کی نمائندگی کرتا ہے، قائم مقام چیئرمین صابر بلوچ نے کہا یہ رولز کی کتاب ہے جس میں درج ہے کہ اگر چیئرمین اپنے چیمبر میں بھی ہوتو اور کسی ممبر کا استحقاق مجروح ہو تو وہ معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھجوا سکتا ہے، قائد ایوان نے کہا کہ یہ رولز کی خلاف ورزی ہے آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو آپکو پتہ چلے گا کہ آپ نے غلط کیا ہے، آپ فیصلہ دینے کے بعد اس پر دلائل دیتے ہیں اگر سنیٹر مگسی کو کوئی دکھ ہوا تو ہمیں بھی دکھ ہوا ہے لیکن یہ طریقہ کار نہیں ہے، پھر قائد ایوان کی رولز کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی ممبر کا استحقاق مجروح ہو تو تحریک استحقاق بنتی ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا سنیٹر مگسی نے شہنشاہ کا لفظ استعمال کیا دوسری جانب یہ تحریک استحقاق نہیں بنتی، صابر بلوچ نے اپنا موقف دہرایا مشاہد اللہ خان نے کہا آپ نے حکومت سے پوچھا کوئی نوٹس دیا، قائد ایوان ناراض ہیں، صابر بلوچ نے کہا اجلاس کے بعد میں انکے چیمبر میں جاؤں گا، قائد ایوان نے کہا کہ اسطرح اس معاملے کو حل نہیں کریں گے، ہم چیئرمین سید نیئر حسین بخاری کا انتظار کریں گے کہ وہ آ جائیں، آپ یک طرفہ فیصلہ کرتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے، سینیٹر مگسی نے پولیس اہلکار کا معاملہ ہی نہیں اٹھایا بلکہ وزیراعظم کو کہا کہ جیسے کوئی شہنشاہ آ رہا ہے، صابر بلوچ نے کہا میں نے اسی وقت کہا اس میں وزیر اعظم کا کیا قصور ہے، قائد ایوان نے کہا کہ رولز کو ُکو ماننا پڑے گا ہم اگر اپوزیشن میں ہوتے تو آج واک آؤٹ کرتے، چوہدری اعتزاز احسن نے کہا یہ بات طول پکڑ گئی چیئرمین آپکی رولنگ کے بعد بحث نہیں ہونا چاہیئے تھی لیکن آپ نے رولز کی کتاب نکالی لی، آج حکومت نے اپوزیشن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، جمہوریت کو بچانے کیلئے اس حکومت کو اس حکومت سے بچانا پڑے گا، ہم قائد ایوان کی عزت کرتے ہیں لیکن حکومتی ارکان اگر تقاریر نہیں کرنا چاہتے تو ویسے بھی حکومت کیلئے اس بجٹ کا دفاع مشکل ہے، ہم حکومت کو مناتے ہیں جسکے بعد وہ قائد ایوان کی نشست کی جانب گئے تو سنیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے قائم مقام چیئرمین نے غیر سنجیدہ بات کی ہے۔آئی این پی کے مطابق مشاہد اللہ نے مشورہ دیا کہ وہ قائد ایوان کی دل آزاری کرنے پر ان سے معافی مانگیں جس پر صابر بلوچ نے کہا میں نے قائد ایوان کی بکری چوری کی کہ ان سے معافی مانگوں۔ بجٹ پر بحث کرتے ہوئے سلیم مانڈوی والا نے کہا کوئی شک نہیں کہ وزیر خزانہ محنت سے کام کررہے ہیں لیکن یہ امیروں کا بجٹ ہے، حکومت کا کوئی ٹارگٹ پورا نہیں ہوا۔ کرنل طاہر مشہدی نے کہا بجٹ امیروں کیلئے ہے غریب کیلئے اس میں کچھ نہیں ہے، سینیٹر ایم حمزہ نے کہا ہمارے قائد ایوان چیئرمین آپ کے رویئے سے نالاں ہیں اس لئے احتجاجاً تقریر نہیں کرتا۔ قائد ایوان سینٹ راجہ ظفرالحق نے سینیٹر تاج حیدر کے گھر میں نامعلوم افراد کی تلاش لینے کے واقعہ کی تحقیقات کروا کر ایوان کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔
سینٹ

ای پیپر دی نیشن