آج ایک نوائے وقتئے نے فون کیا اور کئی خبریں پڑھ کر سنائیں۔ مجھے اچھا لگا۔ خوشی ہوئی اور دکھ ہوا۔ یہ خبریں میں پڑھ چکا تھا۔ میرے پاس آٹھ دس اخبار آتے ہیں مگر میں پہلے نوائے وقت دیکھتا ہوں آخر میں اپنے کالم پر بھی نظر ڈالتا ہوں کہ آج پروف کی کتنی غلطیاں ہیں۔
آج ایک تصویر بار بار دیکھی۔ میرے محترم بزرگ دوست جسٹس آفتاب فرخ کو عدالتی خدمات کے لئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی شیلڈ دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس عطا محمد بندیال ساتھ کھڑے ہیں جسٹس آفتاب فرخ مجھے بہت عزیز ہیں کہ میں بھی کسی کو بزرگ کہہ سکتا ہوں۔ وہ ایک پورا زمانہ اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ وہ اپنی خود نوشت لکھیں تو یہ آنے والے لوگوں کے لئے بڑی دلچسپی کا باعث ہو گی۔ جسٹس آفتاب فرخ نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہ بہادری استقامت بلند کردار کی روائت کوئی ایسی قابل ذکر بات نہ ہوتی تھی۔ آدمی صرف اپنے دل زندہ کے لئے یہ قربانی کی کہانی اپنے دل کے صفحات پر لکھتا تھا۔ جہاں سے صرف خدا پڑھ سکتا ہے اور تاریخ اپنی آنکھوں میں یہ کمال محفوظ کرتی ہے جو زوال آمادہ نسلوں کے لئے حوصلہ اور خودداری کی ناقابل یقین نعمت ہوتی ہے۔ ہم دونوں ہاتھ اٹھا کے جسٹس صاحب کو سلام کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی اس معرکہ آرائی کا ذکر نہیں کیا۔ ایک کامیاب ترین شاندار اور عزت مندانہ وکالت میں اپنا نام بنایا۔ آج عدالتی خدمات کے لئے انہیں شیلڈ دی جا رہی ہے۔ جسٹس آفتاب فرخ مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی سے عشق کرتے ہیں اور انہیں دل سے دوست رکھتے ہیں۔ کئی دور کی محفلوں میں دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ میری پیاری بیٹی تقدیس فاطمہ نیازی کی شادی میں جسٹس صاحب ہی نظامی صاحب کو لے کے آئے تھے۔ نظامی صاحب نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جسٹس صاحب کے پاس بھی کئی باتیں ہیں جو مختلف اور دلچسپ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف جس پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ نواب کالا باغ اس کے گورنر تھے۔ بھٹو صاحب نے زیادتی کی کہ مغربی پاکستان کو پاکستان بنا دیا۔ وہ بھی عمران کی طرح نئے پاکستان کی بات کرتے تھے۔ اس طرح نئی نسل کو یاد رہتا کہ مشرقی پاکستان بھی تھا۔ نجانے کیوں میرے دل میں یہ خیال آتا ہے وہ ہوتے تو کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا۔ آج کے حکمرانوں میں اتنی ہمت اور عوام دوستی کا حوصلہ نہیں ورنہ کالا باغ ڈیم بنانے کا آغاز کرنے پر کوئی چوں بھی نہیں کرے گا۔ آغاز کا لفظ تکلف ہے۔ اس ڈیم کے لئے تکمیل کی بات ابتدا ہی میں واقع ہے۔ پاکستان کی بقا اور ارتقا کالا باغ ڈیم کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ بات ہمارے مصلحت اندیش حکمرانوں کے دل میں راہ کیوں نہیں پاتی۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی باتیں کرنے والوں کو بھارت کی یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ا سنے کئی ڈیم ہمارے پانیوں پر بنائے ہیں۔ میری گذارش نواز شریف سے ہے کہ تاریخ نے آپ کو یاد کرے گی اور ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ ہمت کریں؟
پرویز رشید بچگانہ بیانات دیتے ہیں کہ ان کی مونچھوں کے سفید ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ اس پر تحقیق ہونی چاہئے کہ کہیں وہ اپنی مونچھوں پر سفید رنگ کا خضاب تو نہیں لگاتے؟ ’’عمران، طالبان اور طاہرالقادری سٹریٹجک پارٹنر ہیں‘‘ طالبان سے مذاکرات کے لئے تو خود وہ مرے جا رہے ہیں۔ نواز شریف نے اس کے لئے عرفان صدیقی جیسے مخلص آدمی کو ہٹا کر ایک بدنام بیورو کریٹ فواد حسن کو طالبان کمیٹی کا ممبر بنا دیا ہے۔ جس کے لئے ایک اور مخلص اور بہادر شخص میجر عامر بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کھلم کھلا کہا ہے کہ یہ شخص آنے والے دنوں کا مسعود محمود ہے جو بھٹو صاحب کے دل کے قریب تھا اور انہی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن بیٹھا جبکہ احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی منصوبہ بندی خود اس نے کی تھی۔ فواد پر یہ ایک سنگین الزام ہے۔ اس کی وضاحت وزیراعظم ہائوس کی طرف سے آنا چاہئے۔ ورنہ فوادخود مستعفی ہو جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ برادرم عرفان صدیقی اچھے دنوں میں میجر عامر کے ساتھ میرے دس مرلے کے کوارٹر میں آتے تھے۔ میری موہنی ماں میری پیاری بیٹی کو قرآن پڑھا رہی تھی گھر میں یہ منظر دیکھ کر میجر صاحب کچھ دیر حیران کھڑے رہے اور کہا کہ بڑی مدت کے بعد کسی گھر میں یہ منظر دیکھنے کو ملا ہے کہ دادی پوتی مل کر قرآن پڑھ رہی ہیں۔ وہ نواز شریف کے عاشق ہیں مگر شریف برادران بیورو کریٹس کے عاشق ہیں۔
ایک دفعہ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں کوئی تقریب تھی اور شہباز شریف تشریف لائے ہوئے تھے۔ مجھے ڈاکٹر جاوید اکرم نے دعوت دی تو میں نے کہا کہ میں حکمرانوں کی محفلوں میں نہیں جایا کرتا۔ مگر دوستوں کی دعوت ٹھکرا بھی نہیں سکتا۔ کئی دفعہ برادرم شعیب بن عزیز کی دعوت پر ایسی محفلوں میں جا چکا ہوں۔ اتفاق سے حاضرین کی پہلی صف میں جا کے بیٹھ گیا۔ یہ سیٹ قابل احترام خادم پنجاب شہباز شریف کے بالکل سامنے تھی۔ سٹیج پر فواد حسن فواد بھی تھے۔ وہ ان دنوں سیکرٹری ہیلتھ تھے اور انہوں نے ہی ڈاکٹروں کی ہڑتال کو افسرانہ رعونت سے خراب کیا ہوا تھا۔ مگر وہ محترم شہباز شریف کے لاڈلے تھے۔ شہباز شریف نے اچانک مجھے خطاب کیا اور کہا کہ اجمل نیازی سیکرٹری ہیلتھ فواد کے اچھے کاموں کے لئے بھی تنقیدی بات کرتا ہے۔ لوگ حیران رہ گئے کہ اس بات کا کیا تعلق آج کی تقریب سے ہے۔ پہلے میں خاموش اور پریشان بیٹھا رہ گیا۔ اس کے لئے ڈاکٹر جاوید اکرم نے میرے ساتھ معذرت کی۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں صوبے کے سربراہ کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی بات بھی کر دے۔ آج وہی فواد نواز شریف کا قابل اعتماد چہیتا ہے۔ بیورو کریسی جانتی ہے کہ حکمرانوں کو کہاں کہاں خراب کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے میں بیورو کریسی کو برا کریسی کہتا ہوں۔ دوست افسران بھی مجھ سے خفا رہتے ہیں جبکہ میں دل والے اچھے افسران کے لئے دل میں بڑی قدر رکھتا ہوں۔ فواد سے گذارش ہے کہ وہ اتنا تو کریں کہ پرویز رشید کو بچگانہ اور احمقانہ بیانات سے روک لیں۔ نواز شریف کو بتائیں کہ اس وزیر شذیر کی وجہ سے کتنا کام خراب ہو رہا ہے۔
جس رات کراچی ائر پورٹ پر حملہ ہوا تو چودھری نثار نجانے کہاں تھے۔ میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ نواز شریف رات بھر انہیں ڈھونڈتے رہے۔ ’’چن کتھے گزاری اے رات وے‘‘ انہوں نے دوسرے دن کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سب کچھ ان لوگوں کا کیا دھرا ہے جو حکومت اور طالبان کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ پرویز رشید چودھری نثار سے پوچھ کر بتائیں کہ طالبان کے ساتھ ملاقات کا کیا تعلق ہے۔ یہ کونسے سٹریٹجک تعلقات ہیں؟ پاک فوج کو بھی پریشان کیا جا رہا ہے۔ کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ پاک فوج نے ناکام کیا ہے۔ اس میں وفاقی اور سندھ حکومت کی کامیابی کیا ہے؟