کفالت عامہ اور امداد باہمی کا تصور ہمارے ہاں معدوم ہو چکا ہے۔ غربت پر خوب تقاریر کی جاتی ہیں، لکھا جاتا ہے، نجی محفلوں میں افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ اس کی وجہ اسلام کی تعلیمات سے ناآشنائی ہے۔ اسلام نے امداد باہمی اور کفالت عامہ پر بہت زور دیا ہے۔ جہاں افراد کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے وہاں اسلام نے صاحب ثروت لوگوں کو اس سے بری نہیں کیا۔ جب افراد اپنے وسائل سے اپنی ضروریات پوری نہ کر سکتے ہوں تو معاشرے کا فرض ہے کہ وہ ان کا بوجھ مل کر اٹھائے۔ اسلام مال و دولت کے حوالے سے ایثار اور قربانی کادرس دیتا ہے۔ مال کو جمع کرنے والوں کے منہ قیامت کے دن انھی کے مال سے داغے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جس کو تم سنبھال کر رکھتے تھے ۔ آج لوگ اتنے خودغرض ہو گئے ہیں کہ لاکھو ںروپے گھر کی تزئین و آرائش پر لٹا دیتے ہیں، مہنگے ہوٹلوں میں کھانے کھاتے ہیں، مہنگے برانڈز کے کپڑے پہنتے ہیں، شادی بیاہ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے غرض جس کے پاس دولت ہے وہ اس کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہے لیکن وہ اسی دولت سے کسی مرتے ہوئے کو زندگی کی آس نہیں دے سکتا۔ ہمارے نام نہاد مسلمانوں کے اندر ایک تصور بیٹھ گیا ہے یہ دولت میں نے کمائی ہے لہٰذا اس پر میرا حق ہے میں کسی کو دوں یا نہ دوں مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن یہ تصور غیراسلامی ہے۔ اسلام مل بانٹ کر کھانے کی ترغیب دیتا ہے، زکوٰۃ کا نظام بھی اسی لیے ہے کہ دولت کی گردش ہوتی رہے۔ کہیں کوئی غریب بھوک سے مرتا ہے تو اس کی ذمہ داری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے حضور نبی اکرمﷺ نے صحابہ اکرامؓ سے فرمایا تم میں جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ اس کو لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد زاد راہ ہے وہ اس کو لوٹا دے جس کے پاس نہیں۔ اسی طرح حضور نبی اکرمﷺ مختلف اصناف مال کا ذکر فرماتے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا ضرورت سے زائد کسی بھی شے پر ہمارا حق نہیں (مسلم) لیکن ہمارے ہاں ایسا بالکل نہیں ہوتا بڑے بڑے محلات میں ایک یا دو افراد رہتے ہیں جبکہ سینکڑوں افراد اپنی زندگی سڑکوں اور پارکوں میں بغیر چھت کے بسر کر نے پر مجبور ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ کا ارشاد ہے کہ مجھے جس بات کا اب علم ہے اگر اس سے پہلے ہوتا تو میں اس میں کبھی تاخیر نہ کرتا اور بلاشبہ ارباب ثروت کی فاضل دولت لے کر فقراء اور مہاجریں میں بانٹ دیتا۔ اسلام میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پورا حق ہے اور وہ حق اس قدر ہے کہ خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے کے مال میں حق رکھتے ہیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اہل دولت کے اموال پر ان کے غریبوں کی معاشی حاجت کو بدرجہ کفایت پورا کرنا فرض کر دیا ہے۔ بس اگر وہ بھوکے ننگے اور معاشی مصائیب میں مبتلا ہوں گے تو محض اس لیے کہ اہل ثروت اپنا حق ادا نہیں کرتے اور ان کی معاشی کفالت نہیںکرتے اللہ قیامت کے دن اس کی ان سے بازپرس کرے گا اور اس کوتاہی پر ان کو عذاب دے گا۔ حضور نبی اکرمﷺ نے یہ اصول وضع فرما دیا: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہے دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہے (بخاری) یعنی جس کے پاس جس درجہ کھانے کی چیزیں موجود ہے وہ اسی ترتیب سے اس میں لوگوں کو شامل کرے۔ کھانے سے مراد صرف وہ کھانا نہیں جو کھانے کے وقت کھایا جاتا ہے۔ اس سے مراد بھوکوں کی کفالت کرنا ان کو عطا کیے گئے رزق میں حصہ دار بنانا ہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک بار ایک صحابیؓ کے پاس زادراہ کم پڑ گیا حضرت ابوعبیدہؓ نے تین سو صحابہ کرام کا مال منگوا کو یکجا کیا اور پھراس مال کو سب میں برابر تقسیم کر دیا۔ اسلام مل بانٹ کر کھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے نظام میں باندھتا ہے جس میں کوئی خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ سب کو ایک دوسرے کی ذمہ داری دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے مال پر حق دیتا ہے۔ ریاست کی ذمہ داریوں پر ہمیشہ بات کی جاتی ہے لیکن ہم ریاست کی ذمہ داریوں کو پوائنٹ آئوٹ کرتے کرتے اپنی ذمہ داریوں سے بھی غافل ہو گئے ہیں۔ اسراف حرام ہے ایسی صورت حال میں جب ملک میں قحط ہو لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، عورتیں غربت کی وجہ سے عزتیں بیچنے پر مجبور ہوں بے روز گارخود کشیاں کر رہے ہوں، غریب باپ بھوکے بچوں کو نہر میں پھینک آتا ہو… ان تمام معاملات کی جہاں حکمرانوں سے پوچھ گچھ ہو گی وہاں صاحب مال لوگوں کو بھی کٹہرے میںکھڑا کیا جائے گا۔ یہ احادیث مبارکہ ان لوگوں کے لیے دلیل ہیں جو اپنے مال کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی ہڑپ کرنے فکر میں رہتے ہیں۔ افراد کے ساتھ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی معاشی کفالت کرے اور امداد باہمی کے جذبے کو فروغ دے۔ اس کیلئے اسراف کو قانونی طور پر جرم قرار دیا جانا چاہئے۔ صاحب ثروت لوگوں پر ان کی حیثیت کے مطابق قانونی طور پر پابندی ہوکہ وہ چند نادار اور مفلس لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری لیں۔ جائیداد کی ایک حد مقر ر کی جائے اس سے تجاوز کرنے والے کا مال لے کر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جانا چاہئے۔ امداد باہمی کے فروغ کیلئے ٹائون کی سطح پر ایسی سوسائٹیز بنائی جائیں جس میں ہر گھر سے ماہانہ کچھ رقم لے کر جمع کی جائے۔ اس رقم سے اس ٹائون کے مستحق لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اس سے نہ صرف امداد باہمی کا جذبہ فروغ پائے گا بلکہ بہت حدتک غربت پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔