اس وقت ملک پر بڑے بھائی کاراج ہے ٗقسمت کی دیوی اس پر مہربان ہے ٗبڑے بھائی کے رزق میں اللہ نے بہت کشادگی عطا کی ہے ٗسارے وسائل اس کی مٹھی میں ہیںیہ اوربات ہے کہ اس کے دسترخوان پر چھوٹے بھائیوں کی گنجائش نہیںبن پارہی ٗاندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے ٗ کے مصداق سارے وسائل صرف لاہور کوعروس البلادبنانے پرلٹائے جارہے ہیں۔اب جڑواں شہروالوں کی بھی قسمت جاگی ہے۔انہیں بھی میٹرو کا تحفہ مل گیا ہے۔کراچی ٗکوئٹہ اورپشاورہنوزتشنہ لب ہیں۔ میٹروسروس ہوکہ بین الاقوامی اقتصادی راہداری کا مجوزہ منصوبہ ٗ کراچی ٗکوئٹہ اورپشاور عرضیوں اور چٹھیوں کے باوجود اپنا حصہ پانے کے لئے بڑے بھائی کو رام کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔بڑے بھائی کی اپنی ترجیحات ہیںجس میں لگتا ہے کہ لاہور اور اسلام آبادکے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کراچی کے لئے موٹر وے اورگرین بس سروس کے وعدے بھی ٗ ابھی تک اعلانات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ نوے کی دہائی میں جب کراچی آپریشن شروع ہواتو 1997-98میںبھی وزیراعظم نوازشریف نے کراچی موٹروے کااعلان کیا تھا اور سہراب گوٹھ پر اس کی دیوہکل افتتاحی تختی بھی انہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب کی تھی۔اٹھارہ سال گزر گئے ٗاس منصوبے کی کہانی اس تختی سے آگے نہ بڑھ سکی۔اب پھرکراچی میں آپریشن ہورہاہے تو انہوں نے ایک بار پھرموٹروے بنانے کا اعلان کیا ہے۔
یوں تو اسلام آباد ٗلاہور ٗکوئٹہ ٗپشاور اور سب کے سب شہر میرے اپنے ہیں لیکن وسائل کی تقسیم میں توازن قائم کئے بغیر ان شہروں کے درمیان محبتوں کو پروان چڑھانا مشکل ہے۔سندھ 67فیصد ریونیو دیتا ہے ٗلگ بھگ 70فیصد گیس اور40فیصد آئل فراہم کرتا ہے مگر بدلے میں اسے کیا ملتا ہے ٗ یہ سوال اب شدت اختیار کرتاجارہا ہے۔خاص طور پر کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے اوربہت حساس شہر ہے مگر اس شہر کی ترقی صرف وعدوں اوردعووں تک محدودہوکررہ گئی ہے۔کراچی میں دوسال سے آپریشن جاری ہے ٗاس صورت حال میں وسیع پیمانے پر ترقیاتی کام بھی ہونے چاہئیے تھے تاکہ حالات بہتر بنانے میں مددملتی لیکن کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا۔ گرین ریپڈبس سروس کا منصوبہ 16ارب روپے کا ہے ٗ لیکن اس کے لئے حالیہ بجٹ میں صرف دس کروڑ رپے رکھے گئے ہیں۔وفاق کی سخاوت کا یہی عالم رہا تو یہ منصوبہ اگلے پچاس سالوں میں بھی مکمل نہیں ہوگا۔اسی طرح موٹروے کا مسئلہ ہے ٗ لوگ کہتے ہیں ٗ یہ منصوبہ کبھی بھی نہیں بنے گاکیونکہ یہ صرف سیاسی نعرہ ہے۔ کراچی میں بجلی ٗپانی اورگیس کے مسائل پربھی وفاقی حکومت کا رویہ نامناسب ہے۔آئندہ بجٹ میں سندھ کو وسائل دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس پرسندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے وفاق کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔گزشتہ دنوں ایک تقریب میں سندھ کے وزیربلدیات واطلاعات شرجیل انعام میمن کا خطاب بھی بڑا چشم کشا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کراچی کو مزید پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے لیکن یہ افسوس ناک بات ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی سمیت پورے سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں مل رہا ہے۔ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب صوبوں کو ساتھ لے کر چلے لیکن ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے وفاقی حکومت کا رویہ مایوس کن ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا ٗ سندھ اور بلوچستان اس کی ذمہ داری نہیں ہیں اور ان کے نزدیک صرف پنجاب ہی پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے گرین لائن بس منصوبے کے لئے گزشتہ سال رقم مختص کی جانی تھی لیکن ایک سال تاخیر کے بعد آئندہ بجٹ میں یہ رقم رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا ڈاکہ گیس پر ڈالا جارہا ہے اور آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ آئین میں درج ہے کہ جس صوبے میں گیس پیدا ہوگی ٗ اس صوبے کو زیادہ حصہ دیا جائے گا۔ ایل این جی سندھ کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم پر ایل این جی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ سازش یہ کی جارہی ہے کہ صنعتیں سندھ سے کہیں اور منتقل ہوجائیں۔ صنعتکاروں نے ہم سے کہاہے کہ ہم ان کے لئے آواز اٹھائیں اور ہم آواز اٹھا بھی رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی زور دارطریقے سے وفاق کے سامنے مسئلہ پیش کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب مزید زیادتی قبول نہیں کریں گے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔ ایل این جی کا بوجھ ڈال کر ہمیں تنگ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی 16 سے 18 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کرکے سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہا ہے۔ سندھ نے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو مسترد کردیا تھا ٗ اس لئے اس کی سندھ کو سزا دی جارہی ہے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ کے عوام کے ساتھ دشمنی نہ کی جائے۔
بنگال اور سندھ نے پاکستان بنایاتھا ۔ہم نے بنگالیوں کواہمیت نہیں دی ٗجس سے وہاں احسا س کمتری پیداہوا ٗجسے ہوادے کربھارت نے پاکستان بنانے والوں کو پاکستان کاحریف بنا دیا اور ایک سازش کے تحت بھائی کو بھائی سے جداکردیا۔ آج پھر چھوٹے بھائی چیخ چیخ کر ناانصافیوں کی نشاندہی کررہے ہیںلیکن ان کی سننے والاکوئی نہیں۔خیبرپی کے ٗبلوچستان اورسندھ میں احساس کمتری بڑھ رہاہے ٗاسے نہ روکا گیا توحالات بگڑ سکتے ہیں۔نوازشریف محب وطن اورقومی رہنما سمجھے جاتے ہیں ٗان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی سوچ کو لاہورکی رنگ روڈ سے باہر نکالیں اورپورے ملک کی سوچیں۔ ملک بڑے نازک دور سے گزررہا ہے ٗستر کی دہائی کے منحوس سائے ملک خداداد کے سرپرمنڈلا رہے ہیں ٗایسے میں چھوٹے صوبوں سے لڑنے کی بجائے وزیراعظم آگے بڑھیں اوربڑے بھائی کی حیثیت سے چھوٹے بھائیوں کے سرپردست شفقت رکھیں اور ان کے ساتھ ایثارکا مظاہرہ کریں تاکہ غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو۔