اسلام آباد (محمد فہیم انور) قومی اسمبلی میں مالی سال 2015-16ء کے وفاقی بجٹ پر بحث جاری ہے مگر حکومتی وزراء اور اراکین کی عدم دلچسپی کا سلسلہ بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اراکین خواہ ان کا تعلق حکومتی بنچوں سے ہو یا اپوزیشن جماعتوں سے، ہر رکن بجٹ پر تقریر کرنے کے بعد ایوان میں بیٹھنا گوارا نہیں کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنی تقریر کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ختم ہوگئی ہے۔ دیگر اراکین کا بجٹ سے متعلق تجاویز یا خیالات سننا ان کیلئے شجر ممنوعہ ہے۔ جمعہ کو بھی بحث کے دوران اراکین کی بہت معمولی تعداد ایوان میں موجود رہی۔ اکثر مواقع پر اراکین سپیکر/ڈپٹی سپیکر سے اس بات کا دبے الفاظ میں ضرور کرتے ہیں کہ جناب سپیکر ہم یہ تجاویز تو روایت پوری کرنے کیلئے کر رہے ہیں یہاں نہ تو وزیر خزانہ موجود ہیں نہ دیگر حکومتی وزراء ہماری بات سن رہے ہیں۔ اکا دکا وزیر اگر موجود بھی ہیں تو وہ وزیر خزانہ تک ہماری تجاویز کوکیونکر پہنچائیں گے۔ جس پر سپیکر یا ڈپٹی سپیکر انہیں تسلی دیتے ہیں کہ وزارت خزانہ کے حکام یہاں موجود ہیں۔ جمعہ کو بھی فاٹا کے رکن شہاب الدین نے کہا کہ جناب یہاں کوئی وزیر ہماری بات سننے کیلئے نہیں ہیں جس پر وفاقی وزراء لیفٹیننٹ جنرل (ر) قادر بلوچ اور میاں ریاض حسین پیرزادہ نے اپنی نشستوں سے مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم موجود ہیں۔ ایک موقع پر پی ٹی آئی کے رکن سعید مراد نے اظہار خیال کرتے ہوئے جب حکومت پرمسلسل نکتہ چینی کی تومسلم لیگ کے رکن درشن نے آواز لگائی کہ اس کی ڈگری چیک کی جائے۔ پیپلز پارٹی کے رکن لکھی ہوئی تقریر کرنے لگے تو شروع ہی میں ایم کیو ایم کی ایک خاتون رکن نے آواز لگائی کہ ایوان کے قواعد کی رو سے کوئی بھی رکن لکھی ہوئی تقریر نہیں کر سکتا۔اس کیلئے سپیکر کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔جس پر سپیکر نے کہا کہ انہوںنے پہلے سے اجازت لے رکھی ہے۔ اسی لمحے ایوان میں موجود ایک وزیرکو اجلاس کی طوالت کے باعث اونگھ آگئی توایم کیو ایم کی اسی خاتون رکن نے سپیکر کی توجہ مبذول کرائی کہ جناب سپیکر.... وزیر صاحب ایوان میں سو رہے ہیں کیا انہوں نے بھی آپ کی اجازت لی ہے........جس وقت ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اجلاس پیر کو شام چار بجے تک کیلئے ملتوی کیا تو اس وقت ایوان میں صرف 20 ارکان موجود تھے۔