اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیٹ نیوز) وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے بارے میں پالیسی اسی ماہ پیش کردیگی جس پر عملدرآمد نہ کرنیوالی تنظیموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی۔ اس بارے میں کوئی بین الاقوامی دباؤ قبول نہیں کیا جائیگا۔ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے اْنہوں نے کہا کہ غیرسرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھی جو پاکستان کے مفاد کے خلاف تھیں اس سے متعلق خفیہ اداروں نے بھی متعدد بار رپورٹس پیش کی تھیں۔ اس تنظیم پر پابندی لگانے پر متعدد ممالک میں طوفان برپا ہوگیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کوئی بھی ملک کسی غیرسرکاری تنظیم کو اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، جو غیرسرکاری تنظیمیں اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کام کریں گی انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا، اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کرنے والی تنظیموں کو نتائج بھی بھگتنا ہونگے، کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کو غیر ملکی ایجنڈا پر عملدرآمد کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پاکستان میں دو ایسی غیرسرکاری تنظیمیں بھی کام کرتی رہی ہیں جو پاکستان نہیں بلکہ افریقہ کے ملکوں میں رجسٹرڈ تھیں۔ ان تنظیموں نے بلوچستان اور گلگت بلتستان سے متعلق منفی پراپیگنڈا اور من گھڑت خبریں دینا شروع کردیں۔ پاکستان اس معاملے کو غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی میں لیکر گیا۔ ان دو غیرسرکاری تنظیموں کے معاملے میں ووٹنگ کرائی گئی جس میں 12 ارکان نے پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا جبکہ تین ممالک نے ان غیر سرکاری تنظیموں کے موقف کی حمایت کی۔ ان تین ممالک میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل شامل تھے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل پاکستان میں غیرقانونی کام کرنیوالی این جی اوز کی حمایت کرتے ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کیلئے پاکستانی معاشرے سے ایسے افراد کی خدمات حاصل کی ہیں جو یا تو سابق سیاستدان ہیں یا انکا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ سزائے موت پر عملدرآمد سے متعلق یورپی یونین کے خدشات کے بارے میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قانون کے تحت سزائے موت قانونی ہے۔ پاکستان میں سزائے موت بحال ہونے پر طوفان برپا ہے۔ 8 سالہ بچے کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے شفقت حسین کے معاملے پر مجرم کی بچپن کی تصویر لیکر دنیا بھر میں واویلہ مچایا گیا کہ ایک کم عمر کو سزائے موت دی جا رہی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام کو کس طور پر متنازعہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پاکستان میں کسی این جی او کو ملکی مفادات کیخلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائییگی۔ تمام مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کو پاکستان کے قوانین اور ضوابط کا احترام کرنا ہوگا، پچھلے کئی سال سے یہ مادر پدرآزاد کام کر رہی تھیں لیکن اب ان سب کو جان لینا چاہئے کہ ان کو مروجہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا اس وقت سینکڑوں این جی اوز واچ لسٹ پر ہیں اگر حکومتی اقدامات کے خلاف ردعمل آیا تو پاکستان کے مفاد کیخلاف کام کرنیوالی این جی اوز کا ’’کچا چٹھہ ‘‘ پارلیمنٹ میں پیش کردونگا، دبائو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے چارٹر کے اندر رہ کرکام کرنیوالی این جی اوز کے کام پر کوئی قدغن نہیں لیکن اس دائرے سے باہر کسی کو کام نہیں کرنے دیا جائیگا، قومی مفادات میں کسی این جی او پر پابندی لگانے کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے، پھانسی کی سزا کی بحالی پر طوفان برپا کیا گیا ہے، قانون اور آئین کے تحت پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے، یورپی یونین اور دوست ممالک کو خطوط لکھے جائیں گے، شفقت حسین کے کیس کے ذریعے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس معاملے پر پراپیگنڈا نہیں ہونا چاہئے، بیرونی ایجنڈا پر کام کرنے والی این جی اوز پر حکومت کی گہری نظر ہے، این جی اوز سے متعلق جلد پالیسی لائی جا رہی ہے طارق فاطی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔ بعض این جی اوز صرف اسلام آباد کیلئے رجسٹرڈ تھیں وہ بغیر اجازت بلوچستان پہنچ جاتی تھیں، پنجاب میں کام کرنے والی این جی اوز خیبرپی کے اور قبائلی علاقہ جات تک جاپہنچیں، انہیں کھلی اجازت نہیں دی جاسکتی، این جی اوز کی آڑ میں غیرملکی ایجنڈا کو پروان چڑھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بہت سے بیرونی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو ان کی پالیسی کے خلاف بیان دینے پر ویزے تک نہیں دیئے، یہ ان کا اختیار ہے، ہم ان کی خود مختاری اور حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ بھی ہمارے اختیاراور حق کو بھی تسلیم کریں، این جی اوز کو فنڈنگ بے شک بیرون ملک سے ہوتی ہے لیکن کام تو وہ یہاں کر رہی ہیں، جو رجسٹرڈ ہو گی اور چارٹر کے اندر کام کرے گی۔ جس این جی اوز پر گزشتہ روز پابندی لگائی گئی وہ سالہا سال سے اپنے چارٹر کے خلاف کام کر رہی تھی۔ ہم این جی اوز کو ضابطے کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، این جی اوز کو تین کیٹیگریز میں لا رہے ہیں جن میں ایک وہ جو رجسٹرڈ نہیں ان کی رجسٹریشن کی جائے گی، دوسری وہ جو رجسٹرڈ ہیں مگر ضابطے کے مطابق کام نہیں کر رہی ہیں انہیں ضابطے پر کام کیلئے مجبور کیا جائے گا تیسری وہ جو رجسٹرڈ بھی ہیں مگر کام ملکی مفاد کے منافی ہے انہیں کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں قانون کی بالادستی ہے کوئی سفارش قابل قبول نہیں، دوسرے ممالک کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم ان کے قوانین کا احترام کرتے ہیں، وہ ہمارے قوانین کا احترام کریں، عدالتی نظام پر اعتماد ہونا چاہئے۔ این جی اوز کی بندش کے حوالے سے تفصیلی بات پارلیمنٹ میں کرونگا۔ شفقت حسین کی پھانسی موخر کرنے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کرلی ہے، جواب موصول ہونے پر تفصیلات سے آگاہ کر دیا جائیگا۔