عالمی فٹ بال تنظیم ’’فیفا‘‘ اپنی ایک سو گیارہ سالہ تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ تنظیم کو پہلا جھٹکا اُس وقت لگا جب اُس کے چودہ سینئر ارکان کو کرپشن کے الزام میں دھر لیا گیا۔ اِن ارکان پر چوبیس سالہ کیریئر میں تقریباً 150 ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ اور کمیشن کا الزام ہے اور امریکہ، سوئٹزرلینڈ کے علاوہ دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں اُن سے تفتیش میں مصروف ہیں۔ کرپشن زدہ ماحول میں 29 مئی 2015ء کو ہونے والے فیفا کے انتخاب میں سیپ بلاٹر 133 ووٹ لے کر پانچویں بار صدر منتخب ہوئے جبکہ اُن کے حریف اُردن کے علی بن الحسین 73 ووٹ لے سکے۔ تاہم سیپ بلاٹر صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد اپنے عہدہ سے 2؍ جون کو مستعفی ہو گئے۔ اُنہوں نے فیفا سے اپنی علیحدگی کا اعلان زیورخ (جرمنی) کے جس ہال میں کیا اُسی ہال میں اگلے روز فیفا کے تقریباً چار سو کارکنان نے اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور تقریباً دس منٹ تک اُن کے لیے تالیاں بجاتے رہے۔ یوں اُن کا 17 سالہ تنازعات سے بھرپور کیریئر اختتام کو پہنچا۔ 79 سالہ سیپ بلاٹر ضمیر کی آواز پر مستعفی ہوئے ہیں یا تفتیشی ایجنسیوں کی طرف سے پریشر آنے پر یا پیرانہ سالی کے باعث اپنے اعصاب کمزور ہونے کی وجہ سے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ تاہم، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سیپ بلاٹر کو انکوائری کا حصہ بنایا جائے گا کیونکہ کھیلوں کی دنیا کے سب سے زیادہ معروف ’’فٹ بال‘‘ کی عالمی تنظیم میں کرپشن کا گھنائونا کھیل اُنہی کے دورِ صدارت میں کھیلا گیا۔
سیپ بلاٹر کون ہیں اور فٹ بال کے لیے اُن کی خدمات کیا ہیں آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ پورا نام جوزف سیپ بلاٹر ہے، اور وہ 10؍ مارچ 1936ء کو سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ 1998ء میں پہلی بار انٹرنیشنل فٹ بال فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے جبکہ وہ فیفا کے آٹھویں صدر ہیں۔ وہ بالترتیب 2002، 2007، 2011 اور 2015 میں صدر منتخب ہوئے۔ تاہم، 2015ء میں صدر منتخب ہونے کے صرف تین روز بعد 2؍ جون کو وہ فیفا کے چودہ سینئر ارکان کے کرپشن میں ملوث ہونے پر مستعفی ہو گئے لیکن وہ فیفا کی اگلی کانگریس کے انعقاد تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ 1975ء سے 1981ء تک بلاٹر ٹیکنیکل ڈائریکٹر کے طور پر فیفا سے منسلک رہے جبکہ 1981ء سے 1998ء تک سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کرتے رہے۔ اُنہوں نے فیفا کے معاملات کو احسن طریقے سے چلایا اور وہ غریب ممالک میں خاص طور سے فٹ بال کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ فٹ بال کھیلنے والے ممالک کے علاوہ ایسے ممالک جہاں فٹ بال ابھی ترقی کر رہا ہے سیپ بلاٹر کو انتخابات میں خاص مدد ملتی رہی۔ پاکستان میں بھی فٹ بال کے فروغ کے لیے اُنہوں نے بہت دلچسپی لی اور مالی معاونت بھی کی۔
سیپ بلاٹر کا سارا کیریئر متنازعہ اور کرپشن کے الزامات سے بھرا ہوا ہے۔ قطر میں 2022ء میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے حوالے سے رشوت لینے کا الزام بھی اُن کے سر ہے؟ جب بلاٹر فیفا کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے تو اُن کے ایک ماتحت مائیکل زین رفینن نے اُن کے خلاف تیس صفحات پر مشتمل ایک طویل شکایت پیش کی تھی جس میں اُن پر الزام عاید کیا گیا تھا کہ وہ مالی بدعنوانی میں ملوث ہیں اور یہ کہ اُن کی بدعنوانی کی وجہ سے فیفا کے ایک اہم مارکیٹنگ پارٹنر نے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کی وجہ سے فیفا کو تقریباً 100 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم سوئس اتھارٹی کی جانب سے سیپ بلاٹر کو کلیئر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اپریل 2012ء میں ورلڈ کپ کے ٹیلی کاسٹ حقوق کی فروخت کے حوالے سے فیفا انتظامیہ کو بھاری رقوم دینے کا معاملہ اٹھا لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 2001ء میں دیوالیہ ہو جانے والی انٹرنیشنل سپورٹس اینڈ لیژر نامی کمپنی کی شکایت پر فیفا کی ’’اخلاقی کمیٹی‘‘ نے ان الزامات کی تفصیلی انکوائری کی کہ فیفا کے ذمہ داران نے اُن سے بھاری رقوم وصول کیں۔ نتیجہ کے طور پر 20؍ اپریل 2013ء کو کمیٹی نے سیپ بلاٹر کو کلیر کر دیا جبکہ رقوم کی وصولی کو تسلیم کر لیا گیا۔
کرپشن کی آوازوں میں ایک آواز سائوتھ افریقہ کی اِن الفاظ کے ساتھ شامل ہوئی ہے کہ ’’ہم نے 2010ء میں فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد کے عوض کسی قسم کی رشوت نہیں دی‘‘ یہ اُن کے وزیر کھیل کا کہنا ہے۔ اگرچہ اُن سے کسی نے اس امر کا سوال تو نہیں کیا تاہم اُن کی اپنے تئیں ایسی وضاحت بھی شکوک کو جنم دے رہی ہے جو ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ والی بات ہے۔ امریکی محکمہ قانون کی جانب سے تفصیلی تفتیش کے بعد یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ فیفا کے سابق نائب صدر وارنر (جو کہ فیفا کے اُن 9 لوگوں میں شامل ہیں جن پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے) نے سائوتھ افریقہ میں 2010ء کے ورلڈ کپ کے انعقاد کے عوض 10 ملین ڈالر رشوت وصول کی تھی۔ جبکہ سائوتھ افریقہ کے وزیر کھیل کا کہنا ہے کہ 10 ملین ڈالر کی یہ رقم رشوت نہیں بلکہ یہ ’’جائز کام کے لیے خصوصی طور پر ادا کی گئی رقم‘‘ ہے۔ ہم ایف بی آئی سمیت کسی بھی ادارے کے سامنے یہ ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ یہ رشوت نہیں تھی۔
انٹرنیشنل فٹ بال تنظیم میں جو ہوا سو ہوا، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے 30؍ جون کو ہونے والے انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ مبینہ طور پر کیپٹن صفدر فٹ بال فیڈریشن کی صدارت کے لیے امیدوار تھے لیکن پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے آئین کے مطابق فیڈریشن کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار کم از کم دو سال پی ایف ایف کی سرگرمیوں میں شامل رہا ہو۔ لہٰذا اب خیبر پختونخواہ کی ایک سیاسی شخصیت کو اس عہدہ کے لیے میدان میں لایا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ کام مشکل ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی سربراہی کے لیے کسی فٹ بال کھیلنے یا کم از کم اچھی طرح سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت کا انتخاب کیا جائے۔