وزیر اعظم پیچھے نہیں رہے۔ بھارت نے جس طرح زبانی کلامی طبل جنگ بجا دیا ہے، اسے غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا ،خاص طور پر جب بھارت یہ دھمکی دے کہ جب چاہے جہاں چاہے، سرجیکل سٹرائیک کر سکتا ہے۔ امریکہ کا رویہ بھی پوری دنیا کے ساتھ یہی ہے، وہ بھی جہاں چاہے ، جب چاہے، فوج کشی کرتا ہے اور ڈرون کے نشانے باندھتا ہے، اب بھارت بھی اپنے آپ کو چھوٹا موٹا امریکہ ہی خیال کرنے لگا ہے وہ منی سپر پاور ہونے کا تو دعویدار ہے ہی، اس کی یہ خواہش ہے کہ وہ مہا بھارت کے خواب کی تکمیل بھی کر لے مگر اس راستے میں اسے پاکستان حائل نظر آتا ہے، پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے اس نے اکہتر میں کھلے عام مشرقی پاکستان کو علیحدہ کروانے کے لئے فوج کشی کی، اس نے ایک چھوٹے سے جزیرے مالدیپ کو بھی بحری کشتیوں کے ذریعے نشانہ بنایا، اب برما پر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کر رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو انتباہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان نہ تو مالدیپ ہے، نہ برما، یہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور عوام نے پیٹ پر پتھر رکھ کر اور گھاس کھا کر اس صلاحیت کو حاصل کیا ہے، پاکستان ہر نوع کے میزائلوں سے بھی لیس ہے اور اس کی افواج نے دہشت گردی کی جنگ میں فقید المثال کامیابی حاصل کر کے امریکہ اور نیٹو جیسی مضبوط فوجی طاقتوں سے اپنا لوہا منوایا ہے جبکہ بھارت کی افواج پورے ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی علیحدگی اور آزادی کی تحریکوں کو دبانے میںناکام ہو چکی ہیں۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کو ہمیشہ خطرات لاحق رہے اور اب بھی بھارت ہی نے بیانات کی گولہ باری میں پہل کی ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے، اس کے لئے دو آرا ہو نہیں سکتیں، ہمیں یا تو زندہ رہنا ہے یا پھر مر جانا ہے، سلطان میسور نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
قوم نے بھارتی دھمکیوں کا مسکت جواب دیا ہے اور اب ملک کے منتخب وزیراعظم نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی امن کی خواہش کو اس کی کمزوری پر محمول نہ کرے، وزیر اعظم نے یہ گلہ بھی کیا ہے کہ بھارت نے ان کی طرف سے دوستی اور قربت کے پیغامات کا صحیح جواب نہیں دیا۔ بھارتی قیادت کے غیر ذمے دارانہ بیانات سے مفاہمت کے عمل کو سخت دھچکہ لگا ہے۔ وزیراعظم نے کھرے لہجے میں کہا ہے کہ مودی کا بیان پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے۔ پاکستان کشمیر کو فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ ہے اس شخص کا ردعمل جس نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں واجپائی کو پاکستان میں مدعو کیا اور جس نے اپنی تیسری ٹرم میں بھارت کو پیش کش کی کہ واہگہ بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رہنا چاہئے۔
وزیراعظم کو یقینی طور پر بھارت کے جارحانہ رویئے سے مایوسی ہوئی ہے۔
بھارت کے ساتھ دوستی اور قریبی تعلقات کا ہر کوئی حامی ہے مگر شرط یہ ہے کہ بھارت کشمیر کا قضیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے۔ پاکستان کو بھارت کے وجود سے انکار نہیں، دونوں ملکوںنے باہمی مفاہمت سے آزادی حاصل کی تھی اور بہتر ہوتا کہ دونوں ملک ایک اچھے اور پر امن ہمسائے ثابت ہوتے مگر بھارت نے روز اول جارحیت کا آغاز کر دیا۔ جوناگڑھ، منادر، حیدر آباد دکن اور کشمیر کو ہڑپ کر لیا اور پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس کے جغرافئے کی کتر بیونت تو اکہتر میں کر دی گئی، اب بقیہ پاکستان میں باغیوں کی کھلی سر پرستی کی جارہی ہے، بھارت اس سرپرستی کو چھپاتا بھی نہیں، اس نے تو کھلے عام کہا ہے کہ وہ پاکستان کو اس کے اندرونی دہشت گردوں کے ہاتھوں زچ کرتا رہے گا۔ جارحیت کی ا س سے بڑی اور واضح دھمکی اور کیا ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم نے ایک قومی اورمدبر راہنما کی حیثیت سے بھارتی جارحیت کو لگام دینے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف بھارت سے دوستی کے قائل تھے، اس کے لئے انہیں ملک کے اندر بھی ہدف تنقید بنایا گیامگر اب انہوںنے خود دیکھ لیا کہ بھارت ایساملک نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کو جارحیت سے کیسے روکا جائے۔
قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا تو اس وقت کے انگریز کمانڈر انچیف نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے بھارت نے کشمیر پر قبضہ مستحکم کر لیا۔ پینسٹھ میںایوب خاں نے کشمیر کو گوریلا جنگ کے ذریعے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے یہ بھی فوج کا ایک اقدام تھا ورنہ پاکستانی عوام کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ کشمیری عوام کو، ننانوے میں حکومت تو سول ہاتھوںمیں تھی مگر جنرل مشرف پر الزام ہے کہ اس نے کسی کے مشورے کے بغیر کارگل میں جنگ چھیڑ دی، چلئے یہ کوشش بھی رائیگاں گئی کہ کارگل آپریشن متنازعہ بنا دیا گیا مگر آج تو حکومت اور فوج ایک صفحے پر موجود ہیں یا کم از کم نظر تو ایسے ہی آتے ہیں تو جس طرح دہشت گردی کی جنگ قومی اتفاق رائے سے لڑی گئی، اسی طرح کشمیر کی آزادی کے لئے بھی قومی مشاورت کا ا ہتمام کر لیا جائے۔ کیا ہم نے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہیں، کیا کشمیریوں کی قسمت میں سدا کی غلامی لکھی ہے، کیا بھارت کے ساتھ یہ معاملہ طے کرنے کا کوئی پر امن راستہ باقی ہے۔ ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم ایک قومی کانفرنس بلائیں، ان لوگوں کو بھی بلائیں جو بھارت کے گن گاتے ہیں اور میرے جیسے چڑچڑوں کو بھی بلائیں جو بھارت کا نام سنتے ہی کھول اٹھتے ہیں۔
آج بہرحال یہ کوئی حل نہیں جو جنرل حمید گل نے پیش کر دیا ہے کہ فوج کچھ عرصے کے لئے ملک کا انتظام سنبھال لے۔ فوج نے یہ تجربہ کئی بار کر دیکھا۔ ویسے کسی کے کہنے یا روکنے سے فوج اپنے فیصلے نہیں کرتی۔ پاکستان میں تو کبھی نہیں کئے لیکن اب فوجی اقتدار کی کوئی گنجائش نہیں، یہ تو بھارت کے ہاتھوں کھیلنے کے مترادف اور نری حماقت ہے اورا سے خدا نخوا ستہ آخری وار کرنے کاسنہری موقع مل جائے گا۔
بھارت تو دور کی بات ہے، اب تو افغان کٹھ پتلی صدر پاکستان کو دھمکانے لگا ہے، کہتا ہے پاکستان نے برسوں سے افغانستان کے خلاف جنگ کا آغاز کر رکھا ہے، اسے کہتے ہیں کہ لسی بھیڑ کو ہر کوئی چھری لے کر ذبح کرنے کے درپے ہو جاتا ہے۔
وزیراعظم نے خطرات کو محسوس کر لیا ہے، وہ تیسری مرتبہ اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، ظاہر ہے ان کے ذہن میں کوئی تو حل ہو گا کہ پاکستان کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود، اس کی آزادی، اس کی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔
مو¿رخ کے ہاتھ میں قلم ہے اور وہ وزیراعظم کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے، وزیراعظم نے بھارت سے دوستی کرنی ہے تو ضرور کریں مگر کشمیر کی قیمت پر نہیں، آئے روز گیدڑ بھبکیاں سننے کی قیمت پر نہیں، جناب وزیراعظم، اس قوم کی غیرت کی حفاظت کیجئے اور تاریخ میں امر بن جایئے۔