عید کے بعد عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے تحریک انصاف نے ابھی سے پلاننگ شروع کر دی ہے لیکن عوام ابھی سے ہی سڑکوں پر بھٹک رہے ہیں ۔رمضان بازاروں میں جان لیوا مہنگائی نے ابھی پورے بازار کا طواف کرنے پر مجبو ر کر رکھا ہے ۔اور اس بابرکت مہینے میں رفاعی ادارے سال بھی کی جمع پونجی اکٹھی کرنے کے لیے فنڈ ریزنگ میں مصروف ہیں حالانکہ یہ کام ہمار ے منتخب عوامی نمائندوں کو کرنا چاہیے تھا جنہوں نے اسی مقصد کے لیے ووٹ لیے ہیں لیکن وہ نظر ہی نہیں آتے ۔رمضان کے بابرکت مہینے میں ہر کوئی نیکیاں کمانے میں مگن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے باعث رحمت ہوتا ہے حضرت ابراہیم بن ادہم کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ بڑے مہمان نواز تھے جب تک آپ کے ہاں کوئی مہمان نہ آجاتا آپ کھانا نہیں کھاتے تھے۔اکثر اوقات مہمان کو ڈھونڈ کر گھر لے آتے تھے اور مل کر کھانا تناول فرماتے تھے۔ماہ صیام کا آغاز ہو چکا ہے۔ماہ رمضان کو اللہ تعالیٰ کا خاص مہمان بھی کہا جاتا ہے۔رحمتوں ،برکتوں والا مہینہ مسلمانوں کے بطور انعام ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے خاص مہمان کو مسلمانوں کے لئے بھیجتا ہے ،اس ماہ میں باقی مہینوں کی نسبت کی جانے والی نیکیوں کے درجات سترگناہ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔شیطان کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے،دوزاخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔یوں سمجھیں نیکیوں کا بنک بیلنس بڑھانے کا بہترین موقع مل جاتا ہے۔نجانے کیوں انہوں نے سچائی کا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے۔وہ راستہ جہاں ،مصیبتیں،گردشیں،تکلیفیں،ذلت ورسوائی کے انبار لگے ہیں۔یہ وہ راستہ ہے جو دوزاخ کی آگ میں لے جاتا ہے۔تعجب کی بات ہے رمضان مبارک کے شروع ہوتے ہی منافع خوروں کی عیدیں ہو گئی ہے۔تاجروں ،بلیک مافیا نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔اشیا خورد نوش کے ریٹ آسمان کو چھو رہے ہیں۔خادم اعلیٰ پنجاب نے سستے بازار تو متعارف کروا دیئے مگر ان بازاروں میں بکنے والی اشیا کا نوٹس بھی لیتے تو اچھی بات تھی۔شکایت کریں بھی تو کس سے کریں۔کوئی سنتا ہی نہیں۔صرف کاغذی کاروائی ہوتی ہے عمل درآمد نہیں ہوتا۔سفید پیپر کالے ہوتے ہیں۔ناقص چیزوں کا ریٹ کم کر کے ان بازاروں میں کھلے عام فروخت جاری ہے۔ہم رب رحمان کو بھول کر شیطان کے غلام بن گئے ہیں۔روزہ تو تقویٰ سیکھاتا ہے۔کاش ہمیں تقویٰ کرنا آجاتا۔اللہ تعالیٰ تمام اہل مسلم کو ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے اورسیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!
”دہشت گردی کا ناسور“
دمشق کے جنوب میں حضرت سیدہ زینب ؓکے مزار کے قریب ہونے والے خود کش دھماکوں میں 20افراد ہلاک 55 زخمی ہوگئے۔بعض ذرائع کا کہنا ہے مزار کو جانیوالے داخلی دروازے پر ایک دھماکہ ہوا، کئی گاڑیاں تباہ ہوگئیں ملبہ بکھر گیا۔ خبر رساں ادارے ’ سانا‘ کے مطابق ہفتہ کو پہلا دھماکہ ایک خود کش بمبار نے کیا جو اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا جبکہ دوسرا دھماکہ ایک کار بم کا نتیجہ تھا جو مزار سے کچھ فاصلے پر ہوا۔ دہشت گردی کسی بھی جگہ ہو وہ باعث مذمت ہے لیکن امریکی سرپرستی میںبھارت، افغانستان اور اسرائیل ایک ہوگئے اور ان کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کر رہی ہیں منصوبے کے مطابق پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر مقامی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلائی جائے گی۔بھارت اورافغانستان اپنے ہاںہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔یوں پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار اور دہشت گردملک قرار دیا جائے گا اور اس کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کوشش کی جائے گی۔یہ حقیقت ہے کہ امریکہ خطے میں استحکام نہیں چاہتا۔ پاکستان نے امریکی جنگ میں اتحادی کا کردار ادا کرنے کی قیمت جانی ومالی نقصانات کی صورت میں ساری دنیا سے زیادہ ادا کی، لیکن امریکہ نے بھارت کو سر پر چڑھایا ہوا ہے۔ بھارت نہ تو افغانستان کا ہمسایہ ہے نہ اس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ نہ ہی کوئی مذہبی، ثقافتی یا روحانی رشتہ ہے تو پھر بھارت کو افغانستان میں مراعات دینے کا کیا مطلب ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت تک افغانستان میں ہے جب تک امریکہ ہے۔ گویا امریکہ کے کندھوں پر سوارہو کر بھارتی افغانستان تک پہنچے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہی نکل جائیں گے۔ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگانے اور جنوبی ایشیاءپر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ لہذابھارت افغانستان میں رہنے کے لئے مختلف بہانے بنا رہا ہے۔ اصل میں وہ افغانستان میں بیٹھ کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے چکر میں ہے۔ جس میں وہ انشاءاللہ ناکام ہو گا
”بنام خادم اعلٰی پنجاب“
رمضان المبارک میں بے شمار رفاعی ادارے این جی اوز فنڈز اکٹھے کرتے ہیں لیکن غربت بڑھتی جا رہی ہے اس لیے خادم پنجاب خصوصی طور پر ایسے تمام اداروں کا کسی تیسری پارٹی سے آڈٹ کروانا چاہیے لیکن اس کا طریقہ یہ ہو کہ جس بھی ادار کی آمدنی ایک کروڑ سے زیادہ ہو اس کا چپکے سے آڈٹ کروایا جائے تاکہ پتہ چلے کہ صدقہ خیرات سے کتنا پیسہ غریبوں پہ خرچ ہو رہا ہے اور کتنا پیسہ خردبرد ہو رہا ہے ،یہ کام پہلی فرصت میں ہو چاہیے ۔