روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا واحد راستہ گزشتہ چار دہائیوں سے سلگ رہا ہے اورافغانستان میں مکمل اور پائیدار امن کا قیام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اِس خطے میں امن کا بیج بونے کی کوشش نہیں ہوئی، بلکہ پاکستان کی جانب سے جب بھی خطے میں امن کا بیج کاشت کرنے کی پرخلوص کوشش کی گئی تو جواب میں ناصرف افغانستان میں جنگ کی آگ سلگادی گئی بلکہ اُس کے شعلوں کا رُخ بھی پاکستان کی طرف کردیا گیا۔ دشمن کی بھرپور کوششوں کے باوجود اگرچہ پاکستان میںجنگ کی آگ تو نہ بھڑکی لیکن پاکستان کے مغربی حصے جھلس کر ضرور رہ گئے اور اس کی تپش پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی محسوس کی گئی۔ خطے میں امن قائم کرنے کی کوششیں ہمیشہ پاکستان کی طرف سے کی گئیں اور انہیں ناکام بنانے کی کوششیں کسی اور نے نہیں بلکہ اُس ملک نے کیں جس کا پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے اتحادی اور ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصہ سے ”صف اول“ کا اتحادی ہونے کا”شرف“ رکھتا ہے۔پاک فوج کی کوششوں سے نیک محمد جیسے شدت پسندوں سے بھی قبائیلی علاقوں میں امن معاہدہ ہوا لیکن امریکہ نے معاہدے کے اگلے روز ہی نیک محمد کو میزائل حملے میں مار کر امن عمل کو تہہ و بالا کردیا۔ اس پر آئندہ کیلئے شدت پسندوں کا امن کے نام سے ہی بدک جانا پہلے سے ہر کسی کو معلوم تھا۔ افغانستان میں موجود امریکہ اور نیٹو افواج کو تو نیک محمد سے کی جانے والی ”وعدہ خلافی“ کا نقصان نہ ہواالبتہ پاکستانی عوام کو اس کی بھاری قیمت اس طرح چکانی پڑی کہ شدت پسندی کی وہ آگ جو افغانستان اور قبائیلی علاقوں تک محدود تھی ، آہستہ آہستہ پاکستان کی جانب سرکنے لگی اور پاکستان کے گلی کوچوں میں بھی بم دھماکے اور خودکش حملے معمول بن گئے۔ اِس کے باوجود پاکستان نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اتمام حجت کے طور پرپاکستانی پارلیمنٹ نے شدت پسند محسود قبائل سے مذاکرات کی اجازت دی تو مذاکرات کی جانب پیشرفت ہونے سے قبل ہی امریکہ نے بیت اللہ محسود اور پھرچار سال بعد 2013ءمیں حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں مارکر امن کی ”پرامن“ کوششوں کو ایک بار پھر ناکام بنادیا ۔
گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران پاکستانی حدود میں ہونے والے چار سو کے لگ بھگ ڈرون حملوں سے پاکستان کی اُن کوششوں کو ہمیشہ نقصان پہنچا جو پاکستان خطے میں شدت پسندی کے خاتمے کیلئے کرتا چلا آرہا تھا، لیکن اکیس مئی کے ڈرون حملے میں طالبان امیر ملا اختر منصور کے مارے جانے سے تو آپریشن ضرب عضب سے حاصل ہونے والے فوائد کو بھی شدید نقصان پہنچا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جغرافیائی خود مختاری کی اِس سنگین خلاف ورزی سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈگمگاتی اعتماد کی فضا کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ نے تو جو کیا سو کیا ہی لیکن اس موقع پر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی بنانے کے ذمہ داران بھی بری طرح بے نقاب ہوتے دکھائی دیے اور کہا جانے لگا کہ پاکستان اگر امریکہ کو خطے کے زمینی حقائق نہیں سمجھا سکا تو یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کہنا کچھ غلط تھا؟تو اس کا جواب ”ناں“میں بھی نہیں ہے۔ دراصل ہمارے پالیسی ساز ادارے آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ قومی مفاد کے امور پر امریکیوں کو زیادہ آنکھیں دکھانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس اور سپاٹ لہجے میں ہی اگر امریکہ کو بتادیا جائے کہ” کہاں سے ریڈ لائن شروع ہوتی ہے تو امریکی اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ وہ نہ سمجھیں “ ۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکی وفد سے ملاقات میں مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں اور یہ مطالبہ کچھ بے جا بھی نہ تھا کیونکہ اگر امریکہ کو پاک افغان سرحد پر متحرک طالبان کمانڈروں کا پتہ چل جاتا ہے تو پھر افغانستان کے اندر متحرک ایسے شدت پسندوں سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے جو پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکی وفد سے ملاقات میں اگرچہ سول قیادت نے بھی واضح کیا کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری ختم کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے، لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان میں بھارتی ، امریکی، ایرانی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کی کارستانیوں، ”را“ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، 21مئی کے ڈرون حملے اور نیوکلیئر سپلائیر گروپ میں شمولیت کیلئے بھارتی لابنگ کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ”گنگ“ اور خارجہ پالیسی بنانے والے گومگو کی صورتحال سے دوچار دکھائی دیے۔حالانکہ امریکیوں کو سمجھانے کی ضرورت تھی کہ پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کے خلاف مشرکہ کارروائیوں اور بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو مزید بہتر بنائے بغیر علاقے میں امن واستحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ جب بھی امن کی جانب پیشرفت ہو تو کبھی ملا عمر کی موت کی خبر ”بریک“ کردی جائے اور کبھی ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں مار دیا جائے۔ کیا امریکہ کی جانب سے ان ”شرارتوں“ کے بعد بھی افغانستان میں عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہریانا قرین انصاف ہوسکتا ہے؟
قارئین کرام!! دشمن کی خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی بنانے والوں کی کامیابی کا عالم یہ ہے کہ بھارت کو این ایس جی کی رکنیت ملنے کی راہ میں ایک کے سوا تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں اور آخری رکاوٹ بھی صرف چین کی صورت میں موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ہم اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں سے کچھ سیکھنے کی بجائے شترمرغ کی طرح حماقت کی ریت میں سر گھسیڑ کر مطمئن ہیں کہ ہمارا دشمن نہیں بلکہ ہم کامیاب جارہے ہیں ۔ لیکن جہاں خارجہ پالیسی بنانے اور نافذ کرنے والے اداروں کی اہم پوسٹوں پر بیٹھے لوگ انسانی سمگلنگ میں مصروف ہوں تو پھر بھلا انہیں اپنے اردگرد خطے پر ایک نظر ڈالنے کی فرصت کہاں ملے گی؟ خارجہ پالیسی بنانے والوں کو اِن ”ضروری“ دھندوں سے فرصت ملے گی تو اُنہیں پتہ چلے گاکہ وقت کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور اب ہم خارجہ پالیسی کے بے آب و گیاہ صحرا میں تنہا کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن المیہ تو یہ بھی ہے کہ برسوں سے ایک موثر، متحرک، ٹھوس اور پائیدار خارجہ پالیسی کی پیاسی اِس دھرتی پر بھی ہم کتنے مطمئن کھڑے ہیں!