وجدان کانفرنس 2016 کی پر وقار تقریب پچھلے دنوں لاہور کے الحمرہ کلچرل کمپلیکس میں منعقد ہوئی ۔ آغاز میں پیر سلطان فیاض الحسن قادری نے اپنے خطاب میں صوفیا کرام کی تعلیمات کے زریعے امن عمل کو یقینی بنانے کی طرف زور دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ صوفیا کرام نے ہر دور میں برداشت اور بھائی چارے کا درس دیا ہے ۔صوفیا کی تعلیمات کا نچوڑ اس بات پر رہتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں سے محبت کی جائے۔اس کے بعد منو بھائی کے زیر صدارت :معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار پر بات چیت ہوئی۔ نجم ولی معروف ٹی وی کمپئر نے بہت خوبصورت انداز میں اس پروگرام کی کمپرینگ کی ۔ الیکٹرک میڈیا کی کچھ خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے دوران پروگرام وہ میڈیا کے مثبت پہلو بھی اجاگر کرتے رہے۔پروفیسر نعیم مسعودٟپروفیسر عبدالرئوفٟاصغر ندیم سید اور باقی مقررین میڈیا کے پاکستانی کلچر پر ہونے والے اثرات سے آگاہ کرتے رہے ۔ ایک وقت تھا جب صرف پرنٹ میڈیا کا دور تھا ۔اخبار کے مالکان اور نمائندوں کو خبر بنانے کے لیے محنت کرنی پڑتی تھی۔پرنٹ میڈیا بہت حد تک ملکی عوام کے جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے خبریں جاری کیا کرتا تھا اور آج بھی پرنٹ میڈیا بہت حد تک مثبت کردار ہی ادا کر رہا ہے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے الیکٹرک میڈیا اور سوشل میڈیا کی جب سے آمد ہوئی ہے ۔پاکستان میں ہیجان خیز اور بریکنگ نیوز کا کلچر فروغ پاتا جا رہا ہے ۔جو کسی بھی اچھے بھلے شہری کو بیمار کرسکتا ہے ۔موثر رابطے کی سہولتیں جب عوام کو میسر ہوئیں تو حکومت وقت کو چاہے تھا کہ اس کے استعمال کے لیے شروع دن سے ہی کوئی مناسب اور مضبوط پالیسی بھی تیار کر لی جاتی۔مگر ایسا ہو نہ سکا اور آج میڈیا کا استعمال لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے سے لے کر ہر قسم کی برائی تک ہو رہاہے ۔ملک میں اس وقت سب سے موثرکردار الیکٹرک میڈیا کا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو یہاں بھی حکومتوں نے ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کرتے وقت صرف اپنی فیس کا ہی خیال رکھا ہے کسی سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ اپنے پروگرامز کے لیے کیا تیاری رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے بہت سے ٹی وی چینلز صرف اپنے کاروبار کے لیے ہر قسم کے پروگرام نشر کر رہے ہیں۔بہت سے غیر ملکی اور غیر اخلاقی پروگرام ہمارے ملک کے لوگوں کو اپنی ٹی وی سکرین پر نظر آرہے ہیں۔ہماری ٹی وی سکرین پر سب سے زیادہ قبضہ بھارتی فلموں اور ڈراموں کا ہے ۔ ایک ایسا ملک جس سے ہمارے تعلقات کسی بھی طرح بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو رہے ہیں۔جو اپنے ہر ڈرامے اور فلم میں مسلمانوں اور پاکستان کے کردار پر گند اچھالتا رہتا ہے ۔بہت دکھ کی بات ہے جس ملک سے ہم ہر وقت جنگ کی حالت میں ہیں۔جو ہمارے ملک کو نقصان پہچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا ہے ۔ہم اس کے پیغام ٟاس کے نظریات ٟاس کے کلچر کو اپنے گھروں تک پہنچا رہے ہیں ۔
وجدان کانفرنس میں مقررین کا اس بات پر اتفاق نظر آرہا تھا کہ اگر میڈیا اپنی آنکھ اور کان کے ساتھ دل سے بھی کام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ معاشرے کے لیے بہتر کردار ادا نہ کرسکے۔ قریب ستر فیصد بہتر کام کر رہا ہے ۔عوام کو بہتر تفریح کے پروگرام میسر ہیں۔ضرورت ہے کہ جو پروگرام پیش کیے جائیں انکا مقصد عوام کو مثبت شعور دینا ہو ۔نہ کہ ان کے جذبات گمراہی کی طرف موڑنا ہو۔ایک وقت تھا ہمارے ٹی وی ڈرامے دنیا میں پسند کیے جاتے تھے۔ ہمارے ٹی وی شوز بھی بہترین انداذ سے چلتے تھے۔مگرنہ جانے کیوں آج ٹی وی چینلز نے طے کر لیا ہے کہ ہر قسم کے پروگرامز کو کامیاب بنانے کے لیے شوبز لوگ ہی بہترین انتخاب ہیں۔حد تو یہ ہے رمضان نشریات میں بھی بہت سے چینلز پر فلم اور ٹی وی سے جڑی ہستیاں ہی نظر آتی ہیں۔کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ مقدس مہینے میں کاروبار کی بجائے آخرت کی فکر کرتے ہوئے سحری و افطاری کے پروگرام خالصتاً مذہبی انداز میں کیے جائیں۔جن کا مقصد عوام کو مذہبی مسائل سے آگاہی ہو۔مگر یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ چینلز تمام اخلاقی حدود پار کرتے نظر آتے ہیں۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلامی پروگراموں میں کیسی کیسی بے حیائی اور فحاشی پھیلائی جارہی ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ سحری کی نشریات جب شروع ہوتی ہیںتو رات دو بجے سے ہا ل نوجوان بچیوں اور دوسری خواتین سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔دنیا میں اور بھی اسلامی ملک ہیں ۔کہیں دین کے نام پر یہ بدمعاشی نہیں ہو رہی ۔صرف کاروبار کے لیے سحری و افطاری کے وقت کیسے کیسے ڈرامے کیے جاتے ہیں ۔انعام کے لالچ میں خواتین و حضرات کیا کیا کرتے ہیں ۔اللہ معاف کرے۔ ضرورت ہے کہ ہمارا میڈیا اپنی ثقافت اور علاقائی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرے۔نئی نسل کے لیے بھر پور تیاری کے ساتھ پروگرام بنائے جائیں۔