پاکستان کی موثر سفارتکاری، بھارت کو این ایس جی کا رکن بنانیکی امریکی کوششیں ناکام

نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا دو روزہ ابتدائی اجلاس ویانا میں ختم ہوگیا جس میں بھارت گروپ کی رکنیت حاصل کرنے میں پاکستان کی موثر سفارتکاری کے باعث ناکام رہا ہے۔ امریکہ کی بھرپور کوششوں کے باوجود چین، نیوزی لینڈ، ترکی، جنوبی افریقہ اور آسٹریا نے بھارت کی شمولیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ بھارتی میڈیاکے مطابق اوباما انتظامیہ بھرپورکوششوں کے باوجود بھارت کو 48 ممالک کے نیوکلیئرسپلائرزگروپ میں شامل کرانے میں ناکام رہی ہے۔ مخالفت کرنیوالوں کا کہنا تھا کہ اسکی شمولیت ایٹمی عدم پھیلائو کے حامی ممالک کیلئے سخت دھچکا ہوگی۔ گروپ میں بھارتی شمولیت سے ایٹمی عدم پھیلائو کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ ویانا میں ہونے والے اجلاس سے قبل این ایس جی کے رکن ممالک کے نام امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہونیوالے اجلاس میں بھارتی شمولیت کے معاملے کی مخالفت نہ کی جائے اور اسے رکن بننے کا موقع دیا جائے۔ ویانا میں نیوکلیئر سپلائر گروپ کے اجلاس میں بھارت کو چین کی مخالفت کی وجہ سے رکنیت نہیں مل سکی۔ اس معاملے پر 20 سے 25 جون تک سئیول میں ہونے والے اجلاس میں حتمی فیصلہ ہوگا۔ امریکہ کی حمایت ملنے کے بعد گروپ کے بیشتر ممالک نے بھارت کی رکنیت کی حمایت کی تھی تاہم چین نے موقف اپنایا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کو نئے ارکان کے لیے قواعد وضوابط میں نرمی نہیں کرنی چاہئے۔ 48 رکنی نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بننے کیلئے ضروری ہے کہ بھارت تمام ملکوں کی حمایت حاصل کرے۔ کسی ایک رکن کی مخالفت بھی بھارتی درخواست کو ویٹو کرسکتی ہے۔
امریکہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ بھارت کا ریکارڈ ایسا نہیں ہے کہ اسے دنیا کے اہم ترین ادارے کا مستقل رکن بنایا جائے۔ بھارت میں علیحدگی کی 30 تحریکیں چل رہی ہیں۔ اس کے کسی بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا بھارت مرتکب پایا گیا ہے جس پر امریکہ کی طرف سے بھی باقاعدہ احتجاج کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی دنیا میں سب سے زیادہ خلاف ورزیاں بھارت کی 7 لاکھ سفاک سپاہ کر رہی ہے اس کی تصدیق اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں کی گئی ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں پوٹا اور افسپا جیسے انسانیت کو شرما دینے والے بربریت پر مبنی قوانین واپس لینے سے انکاری ہے۔ وہ 68 سال سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر تیار نہیں۔ ایسا ملک کس طرح سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حقدار ہو سکتا ہے۔ امریکہ اس کے باوجود اسے سلامتی کونسل کا رکن بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ اپنے مقصد میں اب تک کامیاب ہو چکا ہوتا مگر چین اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ اور گہرے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ قربت کے باعث ہی بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ وہ بھارت کی خصلتوں اور کرتوتوں کو جانتا ہے۔ اس کے چین کے ساتھ بھی تنازعات ہیں۔ بھارت کو امریکہ دنیا میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت پر تجارتی و دفاعی معاہدوں کے تحت نوازشات اسی کا شاخسانہ ہے۔
چین نے بھارت کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کا راستہ روکا تو امریکہ اسے نیوکلیئر سپلائر گروپ کا ممبر بنانے کیلئے سرگرم ہو گیا۔ جان کیری کا این ایس جی کے رکن ممالک کو بھارت کی حمایت کیلئے خط بھارت کیلئے لابنگ ہے۔ پاکستان اور بھارت کو یکساں طور پر نیو کلیئر ممالک سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان کو ایٹمی مواد کے معیار اور سکیورٹی کے حوالے سے بھارت پر برتری حاصل ہے۔ بھارت میں ایٹمی مواد چوری ہونے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ اس کے چھ نیوکلیئر سائنسدان غیر طبعی موت مرے۔ بھارت میں کئی ایٹمی حادثے ہوئے جبکہ پاکستان ایسے حادثات واقعات سے محفوظ رہا ہے۔ اس موازنے کے تحت تو پاکستان کو ترجیحاً این ایس جی کا رکن بنایا جانا چاہیے مگر امریکہ بھارت کی پشت پر کھڑا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک سی ٹونر پاکستان کی این ایس جی کی رکنیت کیلئے حمایت نہ کرنے کی تعجب خیز توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی این ایس جی میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا جاتا ہے، کسی ایک ملک کی حمایت سے پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت نہیں مل سکتی۔ بھارت بھی این ایس جی گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے، اگر پاکستان بھی جوہری ہتھیاروں کے پھیلائوکو روکنے کیلئے کام کرنے والے گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پاکستان کو 48 رکنی گروپ کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ ایک طرف بھارت کی حمایت کیلئے وزیر خارجہ جان کیری این ایس جی کے رکن ممالک کو بھارت کی حمایت کیلئے خط لکھ رہے ہیں دوسری طرف مارک ٹونر پاکستان کو 48 ملکوں کی خود حمایت حاصل کرنے کا درس دے رہے ہیں یہ امریکہ کا دوہرا معیار ہی نہیں منافقت کا بھی شاہکار ہے۔
مارک ٹونر پاکستان اور بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ دونوں ممالک دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ بجائے اس کے کہ امریکہ خطے میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اپنا اصولی کردار ادا کرے، وہ پاکستان اور بھارت کو مل کر دہشتگردی کے خطرے سے نمٹنے کیلئے کہہ رہا ہے جبکہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے۔ جس کے پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ اور امریکہ مستند اور ناقابل تردید ثبوت پیش کئے جا چکے ہیں۔
مودی امریکہ گئے تو اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں ممبی اور پٹھانکوٹ حملوں کے ملزموں کیخلاف پاکستان کو کارروائی کیلئے کہا گیا۔ پاکستان پٹھانکوٹ حملے کے بھارت کے نامزد کردہ ملزموں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ جن لوگوں پر بھارت نے ممبئی حملوں کا الزام لگایا، ان کے خلاف بھارت کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا جس پر عدالتوں نے ان لوگوں کو بے قصور قرار دے کر رہا کر دیا۔ پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات میں پاکستان کے تعاون کا اعتراف بھارت کر چکا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہے۔ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ وکاس سروپ نے کہا ہے کہ بھارت پہلے پاکستان کی حکومت کی کارروائی کا منتظر ہے کہ اسلام آباد پٹھانکوٹ حملے میں ملوث عناصر کے خلاف کس طرح کی کارروائی کرتا ہے۔ بھارت نے مذاکرات کا سلسلہ منسوخ نہیں کیا جبکہ بھارت اس بات کے حق میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوں لیکن اس کے لئے یہ لازمی ہے کہ پاکستان پہلے ایسی فضاء کو قائم کرے جس سے مذاکرات شروع کرنے کا بہترین ماحول بن سکے۔ پاکستان میں دہشتگردی بھارت کرا رہا ہے اور ماحول کو سازگار بنانے کی توقع بھی پاکستان سے کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے یہ باتیں مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالہ سے بھارتی شرائط منظور نہیں، پٹھانکوٹ واقعہ کی تحقیقات کیلئے ہمارے ادارے کام کر رہے ہیں، ایسے واقعات کی تحقیقات کئی سال چلتی رہتی ہیں ہمیں بے صبر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے لئے مسئلہ کشمیر اور سیاچن بھی بہت اہم ہیں، سارے معاملات کو روک دینا اور ایک دو دہشت گردی کو پکڑ کر پورے تعلقات کی تشریح کرنا درست نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات تنازعات کی موجودگی میں معمول پر نہیں آ سکتے۔ ان تنازعات میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو اب قصہ پارینہ قرار دے کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل کرانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بااثر ممالک بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زور نہیں دیتے۔ ایسے میں مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نکلنا ناممکن نظر آتا ہے اور جب تک مسئلہ کشمیر ہے پاکستان اور بھارت کے مابین پائیدار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں نہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہے۔ ایسے میں امریکہ کی جانب سے بھارت کیلئے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلوانے کیلئے حمایت اور نیوکلیئر سپلائر گروپ کا ممبر بنانے کیلئے لابنگ خطے میں بھارت کوبالادستی دلانے کی کوشش ہے جس سے خطہ مزید عدم استحکام سے دو چار ہو گا۔
این ایس جی کے رکن ممالک نے بھارت کی رکنیت کی حمایت نہ کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ ایک بار تو بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دلانے کی امریکہ اور اس کے حواریوں کی کوشش ناکام ہو چکی ہے اب 20 سے 25 جون تک ایک بار پھر اس کوشش کا اعادہ ہو گا۔ پاکستان کا موقف اصولی اور اخلاقی ہے۔ بھارت کیلئے این ایس بی کی رکنیت پاکستان کی رکنیت سے مشروط ہونی چاہیے۔ 48 ممالک اس طرف آ جائیں تو درست ہے اگر امریکہ صرف بھارت کو رکنیت دلانے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان کو اپنی لابی مضبوط کرنی چاہیے۔ جو ملک پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں ان کو ساتھ رکھیں اور فعال و متحرک سفارتکاری کے ذریعے ان میں مزید اضافہ کیا جائے۔ تاکہ بھارت امریکہ کے بل بوتے پر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن