کپاس کی فصل اور ٹیکسٹائل صنعت کی تباہی

نصرت جاویدصاحب نے ا پنے کالم ”برملا“ (نوائے وقت میں یکم جون 2017ئ) میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی حالت زارپربڑاپر مغز تبصرہ فرمایا ہے۔ موصوف کابہت شکریہ حکومت اس شعبہ کو مسلسل نظراندازکرتی چلی آرہی ہے۔ اس صنعت کے مقابلہ میں شوگرملوں کی طرف دھیان زیادہ اور اس صنعت کی حوصلہ افزائی کی و جہ سے شوگرملوں کی تعداد میںغیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ برخلاف ٹیکسٹائل کے شوگرمل تقریباً چار مہینے چلتی ہے۔ اس طرح اگر چار مہینے میں سال بھر کی کمائی ہوجائے تو ٹیکسٹائل مل کون لگائے اور ساراسال سرکھپائے۔ بڑے بڑے سیاستدان متعدد شوگر ملوں کے مالک ہیں‘ اس لئے حکومت کی نظر کرم اس شعبہ کی طرف ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کپاس اس کی شہ رگ ہے‘ اسی لئے یہ ہمیشہ دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتی رہی ہے۔ ماضی میں کپاس پر کئی حملے ہوئے مگر یہ سخت جان ثابت ہوئی اورترقیوں پرترقی کرتی چلی گئی۔ پھرہم نے اپنے پاﺅںپر خود کلہاڑی ماری اور وزارت زراعت وخوراک ختم کردی۔ دنیامیں شاید پاکستان واحد ملک ہے جس میں یہ وزارت نہیں۔ امریکہ جو کہ ایک صنعتی ملک ہے وہاں بھی وزارت زراعت ہے اور اسکا بجٹ پاکستان کے ٹوٹل بجٹ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میںکپاس کی زبوںحالی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کپاس کے زیرکاشت رقبہ 2016-17ءمیں پچھلے سال سے 15.76 فیصد کم ہے۔ پیداوار جو کہ 2014-15ءمیں 2.30 ملین ٹن تھی کم ہو کر 2016-17 میں 1.82 ملین ٹن رہ گئی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار بھی 812 kg/ha سے کم ہو کر 787 kg/ha رہ گئی ہے۔ یہ اعدادو شمار Cotton Review (PCC,GOP) Vol. 49 No, jan.207 سے لئے گئے ہیں۔
سابقہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کپاس پر ظلم کی انتہا کردی‘ یہ کارنامہ انہوںنے شاید اپنے ہندوستانی آقاﺅں کے حکم پر سر انجام دیا ہو۔ یاد رہے کہ موصوف آج کل ایک ہندوستانی ہندو کی فرم میں لندن میں نوکری کررہے ہیں۔ شوکت عزیز نے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی PCCC اورپاکستان انسٹی ٹیوٹ کاٹن ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی (PICRT) کی عالیشان بلڈنگ جو کہ 21,000 مربع گز کے پلاٹ پر کراچی کے ایک اعلیٰ اور مہنگے علاقے میں تھی منہدم کرکے خالی پلاٹ امریکہ کوبیچ دیا۔ میرا ان سے اورسب پاکستانیوںسے سوال ہے کہ کیا حکومت امریکہ ہار ورڈ یا یے ل(Yale) یونیورسٹی کی بلڈنگ پاکستان کے ہاتھ فروخت کرے گی؟
بلڈنگ منہدم کی گئی اور نہایت قیمتی مشینری اور آلات کراچی کے گوداموں میں پھینکوادئیے گئے جو کہ آج بھی وہیں ہیں۔ ان میں ایک پوری ٹیکسٹائل مل 60-70 ٹن کا ائیرکنڈیشنگ پلانٹ‘ 10 یا 12 چھوٹے پلانٹ‘ ایکسرے مشین‘ الیکٹران مائیکرو اسکوپ اوربہت قیمتی سائنسی آلات‘ کاریں‘ موٹر سائیکل وغیرہ ہیں یہ سب کچھ کراچی کی مرطوب آب و ہوا میں گزشتہ کئی سالوںسے پڑا ہوا ہے۔ شاید ناکارہ ہو چکا ہو۔ اگر آج یہ سامان پھرخریدا جائے تو لاگت شاید 100 کروڑ سے تجاوز کرجائے‘ اس کا ذمہ دارکون ہے؟ اور آج تک اس سامان کو نکال کر ملتان کیوں نہیں شفٹ کیا گیا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کاٹن کمیٹی کئی لاکھ روپے ان گوداموں کا کرایہ دے رہی ہے‘ اس کا ذمہ دارکون ہے؟
کاٹن کمیٹی کے دفترکے احاطے میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی تھی‘ مسجد کمیٹی کے ملازمین نے باقاعدہ اجازت لے کر اور چندہ کرکے تعمیرکی تھی۔ مسجد میں پنجگانہ اور جمعہ المبارک کی نمازیں ہوتی تھیں‘ مسجد شہید کردی گئی‘ اسکا ذمہ دار کون؟
کاٹن کمیٹی کے اعزازات: پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 1947-48 میں 17 لاکھ گانٹھیں تھیں جو کہ 1992-93 میں 12 ملین ہوگئیں۔ آج کل 10 اور 11 ملین کے درمیان ہے۔ اس میں کاٹن کمیٹی‘ صوبائی محکمہ زراعت اور PAEC کی کاوشیں شامل ہیں۔ PICRT کو سینٹر آف ایکسیلینس قراردیا گیا۔ ترکی‘ ایران اور انڈونیشیا کے ٹیکنالوجسٹ یہاں ٹریننگ کیلئے آئے۔ PICRT نے تین پیٹنٹ حاصل کئے۔ کاٹن کمیٹی کے ماہرین ورلڈ بینک یونیسکو‘ایف اے او‘ آئی سی اے سی‘ یونیڈو‘ کامن فنڈ کیلئے ورلڈ وائیڈ اوپن کمپیٹیشن میں چنے گئے ان ماہرین نے صومالیہ‘ واشنگٹن‘ برما‘ سری لنکا‘ سوڈان وغیرہ میں کام کیا۔ ان سب کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ
1۔ کاٹن کمیٹی کا ٹیکنیکل آڈٹ کروایا جائے۔
2۔حکومت پاکستان کاٹن کمیٹی کی بلڈنگ کی فروخت کی ا نکوائری کروائے۔
3۔ معزز سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے کر یہ بلڈنگ کیوں فروخت ہوئی؟
4۔ معزز فیڈرل شریعت کورٹ مسجد کی شہادت کا نوٹس لے۔
5۔ 100کروڑ سے زائد کے نقصان کیلئے ایک غیرجانبدار کمیشن بنایا جائے۔
6۔کپاس کی پیداوار میں کمی کا جائزہ لیا جائے اور خاص طورپر دیکھا جائے کہ CLCV‘ میلی بگ اور دوسری بیماریاں صرف سرحد کے مغرب میں ہی کیوں ہوتی ہیں۔ مشرق میں کیوں نہیں؟
7۔ کاٹن کمیٹی کی فروخت کی رقم کہاں ہے‘ یہاں ہے یا دوبئی چلی گئی؟
آخر میں عرض ہے کہ میں یہ تحریر معزز سپریم کورٹ‘ معزز شریعت کورٹ‘ نوائے وقت‘ و دیگر اخبارات نصرت جاوید‘ ہارون الرشید ‘ مجیب الرحمن شامی‘ حسن نثار‘ حامد میر ‘ ڈاکٹر شاہد مسعود کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب کے دل میں یہ بات اتر جائے۔

ای پیپر دی نیشن