خبر ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم صاحب چالیس افراد پر مشتمل ایک ڈیلیگیشن کے ہمراہ چین گئے تھے اور وہاں ”علی بابا“ نام کی کسی تجارتی کمپنی سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔ ڈر ہے کہ پاکستان کے چالیس لوگ چین کی علی بابا کمپنی کے ساتھ کیا ہاتھ کرتے ہیں۔ اللہ علی بابا کمپنی کو چالیس لوگوں سے اپنی امان سے رکھے۔ پھر یہ بھی سب کو علم ہے کہ جناب وزیراعظم صاحب خود بھی ایک انتہائی کامیاب اور تاجر ہیں۔ ان کے سامنے بالشت بالشت بھر کے چینی تاجروں کی کیا حیثیت ہو گی۔ ویسے بھی وزیراعظم صاحب ہر میدان میں جس طرح کامیاب اور کامران ہیں لگتا ہے ان کے پاس کوئی روحانی طاقت ہے ورنہ اتنی کامرانیاں ایک عام آدمی کے پاس ہو ہی نہیں سکتیں۔ اب دیکھئے وہ قیدی ہو کر سعودیہ گئے اور واپس نہ صرف سعودیہ کے بڑے بزنس مین کی حیثیت سے آئے بلکہ آتے ہی وزیراعظم بھی بن گئے۔ وہ یورپ کے کسی بھی ملک میں سرکاری یا غیر سرکاری دورے پر جائیں واپسی پر وہ وہاں کے بڑے بنکوں کے بڑے Client ہو کر آتے ہیں یا وہاں بڑے Assets کے مالک ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ ان کے چہرے پر سکون اور خوشی کی جتنی پکی سرخی ہوتی ہے وہ کسی اور کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھی جا سکتی۔ حتیٰ کہ جب وہ دل کا آپریشن کروا کے واپس لوٹے تو جب وہ جہاز سے ہاتھ ہلاتے ہوئے خراماں خراماں مسکراتے ہوئے اترے تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ وہ دل کا آپریشن کروا کر آئے ہیں بلکہ اعتزاز احسن صاحب کے بیان کہ وزیراعظم صاحب دل کے آپریشن سے گزرے ہی نہیں ہیں تو لوگوں کو پکا یقین ہو گیا کہ وہ شاید ملک سے باہر کسی کاروباری سلسلے میں گئے تھے۔ ان کے اندر کا کوئی پکا اطمینان ان کے چہرے کے اطمینان کو ٹھیک ٹھیک رکھتا ہے۔ وہ بڑے سے بڑے بحران سے یوں ابل کر باہر نکل آتے ہیں کہ بعض اوقات وہ کسی ماورائی طاقت کے مالک لگتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس کے بحران کو دیکھیں وہ ان کے لئے ایک ”لیکھ“ (جو¶ں کی ایک قسم) کے برابر ثابت ہوا ہے۔ پھر فوج کی کسی چھوٹی سی جسارت پر ڈان نیوز لیکس کو اس طرح پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر سمیٹا ہے کہ خود بھی باہر اور اپنی کیبنٹ کے ملزمان کو بھی باعزت بری کروا لائے ہیں۔ کاش وزیراعظم صاحب یہ ساری چالیں اور فہم و فراست اپنی عوام اور ملک کا حال سدھارنے پر لگاتے تو آج قائداعظم کا درجہ پاتے۔ قائداعظم کو تو ملک بنانے کے لئے مٹی چونے سے اپنے ہاتھ لیتھڑنے پڑے اور آخر کار یہی چونا مٹی ان کے پھیپھڑوں میں گھس گیا اور وہ ٹی بی کا شکار ہو کر بستر مرگ پر پڑ گئے۔ وزیراعظم صاحب کو تو بنا بنایا گھر ملا تھا صرف اندر کی آرائش باقی تھی اور گھر کے مکینوں کو دانہ پانی مہیا کرنا تھا مگر وزیراعظم صاحب اپنی Bussiness Empire کو ہی بنانے سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار اندر جھانک لیتے ہیں اور مکینوں کی بے سکونی اور بے بسی پر ایک اچھنبی نظر ڈال کر ہاتھ ہلاتے باہر نکل آتے ہیں جیسے مالک مکان کبھی کبھار اپنے کرایہ پر دئیے ہوئے گھر کا جائزہ لینے اندر آ جاتے ہیں کہ کہیں کرایہ داروں کا گھر پر قبضہ کرنے یا کوئی اور شرارت کرنے کا پروگرام تو نہیں۔ ملک کا سارا خزانہ چالیس لوگوں کے پیٹ میں جا چکا ہے۔ سب کو ایک دوسرے کا پتہ ہے بلکہ اندر خانے ایک دوسرے کو نئے نئے طریقے اور بچ نکلنے کے راستے بتاتے ہیں۔ اتنا کچھ کھا لینے کے بعد نہ تو ان کو بدہضمی ہوتی ہے نہ الٹی آتی ہے۔ لکڑ ہضم‘ پھر ہضم‘ پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں قومی خزانے اور دین کا جس طرح دیوالیہ نکل گیا ہے وہ سب کو علم ہے۔ کچھ وقت کیلئے عدالتیں اور ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں پھر وہی سناٹا۔ جس اسلامی ریاست میں اتنا کچھ غلط ہو رہا ہو مگر سربراہ خلافت ہر وقت چہرے پر ایک اطمینان بھری شگفتہ مسکراہٹ لئے ہوئے ہو اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سب علم تو ہے مگر پرواہ نہیں۔
قارئین کو یاد ہو گا 1998 میں موجودہ وزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی سے ایک شریعت بل پاس کروایا تھا جس کی رو سے ملک میں اصلی Islamiztion لاگو کرنے کے لئے وزیراعظم کو ایک فقہیہ کے اختیارات ملنے چاہئیں۔ جب وہ بل پاس ہوا تو ملک بھر کے اہل فکر حیران رہ گئے کہ ایک ایسا وزیراعظم فقہیہ کے اختیارات کیسے رکھ سکتا ہے جس کا رہن سہن اور سوچ بالکل مختلف ہو۔ پریس میں ہر جگہ اس بل کی شدید مخالفت ہوئی۔ میں نے اس وقت ”دی نیوز انٹرنیشنل“ میں اس وقت انگریزی میں اپنے کالم میں جو کچھ لکھا تھا اس کی چند سطور دہرانا چاہتی ہوں میرے کالم کا عنوان تھا۔Easis said, Than done Mr Primer جو 24.10.1998 کو شائع ہوا۔
The shariat Bill has been Passed by the N.A Providing the Powers of a "Fakhi" to the Primer of Pakistan Mr Nawaz Shariff. Dont wh know that is Islamic set up of govt the supreme commander of the state has to spend his life stnetly according to the injunctions of Holy Quran and striet code of coduct. In Islam govt b taken as the sacral trust. Mr Prime Please dont make mocry of Islam.