حکمران اسلامی بھی خالی ہوئے ایمان سے

1974ءکی اسلامی سربراہی کانفرنس والا پاکستان اور آج 2017 کا ایٹمی پاکستان کتنا فرق ہے دونوں میں۔ صرف 43 سال بعد آج پاکستان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہماراسر جھکا ہوا، لہجہ دبا ہوا اور قدم تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پورا ملک ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ نہ ہمارا کوئی نظریہ ہے نہ آئین ہے نہ قانون ہے نہ ثقافت ہے نہ جمہوریت نہ آمریت ہے، نہ امن ہے نہ چین ہے۔ ہر شخص حیرت کدے میں مانند بت کھڑا ہے یا رزق کی تلاش میں پابہ بجولاں ہے۔ اس لئے کہ یہاں لوگ بیروزگار بیٹھے ہیں۔ نوکریوں کےلئے محیر العقول شرائط ہیں۔ درخواستوں کے ساتھ ایک ہزارسے پانچ ہزار تک غریب امیدواروں سے رقمیں بٹور لی جاتی ہیں۔ ایک آسامی کے لئے اگر بیس ہزار امیدوار درخواستیں بنک ڈرافٹ کے ساتھ بیھجتے ہیں جس کی اوسطاً رقم دو ہزار لگا لیں۔ کل 40 آسامیاں ہیں۔ اب آپ امیدواروں کی تعداد اور دو ہزار رقم کو جمع کر لیں تو آپ کو اس گھناﺅنے بزنس کی شیطانیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ لاکھوں امیدواروں میں سے 40 منتخب کرنے ہیں۔ ان میں سے 35 پہلے سے منتخب کئے جا چکے ہوتے ہیں۔ صرف 5 امیدوار میرٹ پر لئے جاتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان میںچوری ڈاکے کرپشن اور دہشت گردی کے اسباب تو خود مہیا کئے جاتے ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد.... جب مسلسل ناانصافی، استحصال اور میرٹ کا خون ہو گا۔ لوگوں کو روزگار میسر نہیں آئے گا تو شریف سے شریف آدمی بھی اپنی بھوک مٹانے، سر چھپانے اور بل ادا کرنے کے لئے ہر برا اور بدترین کام کرنے پر آمادہ ہو گا۔ غور کیجئے کہ پاکستان میں لوگوں کا ایمان خریدنا کتنا آسان ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال تمام اسلامی ممالک کا وطیرہ بن گئی ہے۔ دنیا میں موجود200 ممالک میں سے 57 اسلامی ممالک ہیں۔ ان 57 اسلام ممالک میںسات مسلم ممالک دنیا کے امیر ترین ملک ہیں جب کہ 57 میں سے 17 اسلامی ممالک امیر کبیر اور خوشحال ہیں۔ 20 ممالک متوسط درجے کے اور 20 ممالک غریب ترین، مفلوک الحال اور انتہائی پسماندہ ہیں۔ 57 ممالک میں سے پاکستان کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ یہ اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے۔ اسلامی دنیا میں اسے مرکزیت اور فوقیت حاصل تھی کہ یہ ایک زندہ قوم ہے۔ دنیائے اسلام کی پہلی وزیراعظم خاتون بے نظیر بھٹو کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن امریکہ بھارت اور چائنہ کے نیچے لگ کر پاکستان نے خود کو اتنا کمزور اور کٹھ پتلی بنا لیا ہے۔ امریکہ کے اشارے پر افغانستان کی جنگ میں کودنے کے مہلک نتائج نے پاکستان کی سیاست، جغرافیے، ثقافت اور سالمیت کو داﺅ پر لگا دیا۔ آج افغانی جونک کی طرح پاکستان کو چمٹ گئے ہیں۔ 1978 سے پاکستان پر ناقابل برداشت بوجھ ہیں اور پاکستانی کلچر کو کلاشنکوف، افیون، چرس، ہیروئن، بھنگ، شیشہ اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا کر دیا ہے۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں شورش اور دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی باگیں ہاتھوں میں تھام رکھی ہیں۔ امریکہ جب چاہتاہے، ڈور کھینچ کر ٹینٹوا دبا دیتا ہے۔ آج کل روس بھی پاکستان پر بہت مہربان نظر آ رہا ہے۔ روس کی پسپائی اور ٹکڑ ے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے میں پاکستان کا بھی ہاتھ ہے۔ تو کیا روس اپنی ہزیمت اور شکست کو فراموش کرکے پاکستان کو گلے لگا لے گا۔ روس کی آج کل دلچسپیاں پاکستان، افغانستان، ایران، شام، یمن اور قطر تک پھیل گئی ہیں۔ روس کی یہ دلچسپی بے سبب نہیں ہوسکتی۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے لیکن پاکستانی سرحدوں پر روزانہ دو سے دس بے گناہ پاکستانی بھارت کی بربریت اور انتقام کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ روز پاکستانی مرتے ہیں لیکن نواز شریف کی بھارت نوازی اور مودی دوستی پر آفرین ہے۔ سعودی عرب کا جھکاﺅ امریکہ اور بھارت کی طرف ہو گیا ہے۔ ریاض کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی آﺅ بھگت اور شیوخ کا امریکی صدر کے آگے بچھ بچھ جانا خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکی صدر کے دورے کے فوراً بعد قطر کے ساتھ یہ بدسلوکی اور اس کا معاشی معاشرتی بائیکاٹ اسلامی امہ میں دراڑ کی تیسری بدترین کوشش ہے۔ اس سے پہلے امریکہ ایران عراق کو لڑاکر بری طرح توڑ چکا ہے۔ 1990ءمیں خلیج کی جنگ کے نام پر سعودی عرب کویت کی عراق سے جنگ کرا چکا ہے اور مکہ مدینہ کی حدود میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر چکا ہے۔ اب اہل اسلام میں پھوٹ ڈالوانے کے لئے ریاض کانفرنس میں سعودی عرب کو ڈکٹیٹ کرکے گیا ہے۔ یہ سامنے آ چکا ہے کہ قطر نے کسی قسم کی مداخلت، نافرمانی، لاقانونیت یا استحصال نہیں کیا ہے۔ 23 مئی کا یہ بیان بالکل عام سا ہے جب شیخ تمیم بن حماد نے ایران کے حوالے سے کہا کہ ایران اسلامی دنیا کا طاقتور ملک ہے۔ یہ ایک سچائی ہے۔ ایران نے ہمیشہ غیرت حمیت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اور ہر بار امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔قطر کئی سال سے امریکہ کی توجہ کا مرکز رہا ہے دوحہ میں العدیہ کے مقام پر فوجی کیمپ ہے جہاں 10,000 امریکی فوجی ہیں۔ یہ عراق کو یہاں سے ٹارگٹ کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یمن، شام اور سعودی عرب کے لئے بھی جاسوسی یہیں سے کی جاتی رہی ہے۔ اب سعودی عرب نے امریکی صدر جس کو امریکی بھی پسند نہیں کرتے اور مغربی دنیا میں بھی جس کا اچھا امیج نہیں ہے غیر معمولی پذیرائی بخشی گئی۔ ایران کو چاروں طرف سے بندشوں میں جکڑا جا رہا ہے ایران ایک بہادر قوم ہے۔ بہت ڈسپلن رکھنے والی، اپنے قانون اور آئین کی پاسدار، اسلام پر سختی سے کاربند اور خوشحال قوم ہے۔ یہ بات امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہی۔ قطر کی امارت، امن، سکون، خوشحالی بھی امریکہ کو عرصہ سے کھٹک رہا ہے۔ اس لئے امریکہ نے منظم طریقے سے قطر کو بری طرح سازشوں کے جال میں جکڑ دیا ہے، خلیجی گلف کونسل کو منظم طریقے سے توڑنے کے لئے یہ زبردست طریقہ ہے۔ امریکہ نے پہلے عراق، افغانستان، شام، یمن، لیبیا اور مصر میں یلغار کی۔ عراق، افغانستان، شام اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ فلسطین اور عراق کو مکمل طور پر کھنڈر بنا دیا۔ اس کے بعد مصر، یمن، افغانستان، پاکستان اور ایران کو نشانہ بنایا اور پانچوں کو بالترتیب نقصان پہنچا رہا ہے۔ اب امریکہ کا رخ امیر ترین مسلم ممالک کی جانب ہے۔ خلیجی گلف کونسل میں سات امیر ترین مسلم ریاستیں ہیں۔ یہ تیل کے کنوﺅں سے لبریز ممالک ہیں۔ ان میں عراق، بحرین، قطر، کویت، اومان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ عراق تو تباہ ہو چکا۔ اب باقیوں کی باری ہے۔ قطر پر بندش اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امریکہ کا ٹارگٹ اس وقت پاکستان، ایران، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ 1969 میں 57 اسلامی ممالک پر قائم ہونے والی اسلامی کانفرنس کی تنظیم او آئی سی نے آج تک کشمیریوں، فلسطینیوں، شامیوں، عراقیوں، ایرانیوں، افغانیوں، پاکستانیوں کےلئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ حد تو یہ ہے کہ مسجد اقصی میں آگ لگائے جانے پر چند غیور سربراہان کے باعث او آئی سی وجود میں آئی تھی لیکن آج تک مسجد اقصی کو واگزار نہیں کرا سکی۔ کشمیر اور فلسطین خون میں نہا گیا لیکن او آئی سی کو جنبش تک نہ ہوئی۔ پاکستان میں ہر ہفتے ایک درجن نہتے بے قصور پاکستانی مار دیئے جاتے ہیں۔ ہر ماہ چھ سے آٹھ بم دھماکوں میں سینکڑوں معصوم پاکستانی شہید کر دیئے جاتے ہیں لیکن کوئی آواز نہیں اٹھتی۔یہ اونگھنے والے سربراہان اسلام ممالک کبھی جاگیں گے۔؟ ؟ ؟

ای پیپر دی نیشن