15جون 2017کو پاکستان کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے جس دن پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونگے۔ اگرچہ JITکی تشکیل سپریم کورٹ کے حکم سے ہوئی ہے مگربحرحال ہے تو تفتیشی ٹیم۔جس میں ایف آئی اے، نیب اور دوسرے اداروں کے ارکان ہیں۔ میںنے وزیراعظم کے مستفعی ہونے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے ان پراعتماد کیاجائے اور ان کو موقع دےں کہ وہ اپنا اعتماد بحال کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیراعظم کاخود پیش ہونا ہی اداروں پراعتمادکا اظہار ہے۔ جمہوریت کا حسن ہے جہاں بڑے سے بڑا بھی جوابدہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق JITکو 13 سوالات دیئے گئے اورحکم دیاگیاکہ وزیراعظم نوازشریف سمیت انکے خاندان کے ارکان پیش ہونگے حسین نواز5 مرتبہ حسن نواز2 مرتبہ پیش ہو چکے ہیں۔ میاں طارق شفیع ایک مرتبہ پیش ہو چکے ہیں شریف انسان ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ بھرپور وفاداری دکھارہے ہیں۔غیرسیاسی ہونے کے باوجود نوازشریف اور شہباز شریف کا ساتھ دینے سے ایک دفعہ بھی نہیں گھبرائے۔JIT نے انکو ڈرانے کی کوشش کی لیکن وہ بہادرنکلے اورڈٹ کرسوالات کے جوابات دیئے نتیجہ کچھ بھی ہو میاں طارق شفیع دادکے مستحق ہیں۔وزیراعظم نوازشریف کی پیشی سے قبل JIT پر بہت سارے اعتراضات اٹھ چکے ہیں جبکہ JIT نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے اپنی مشکلات سے آگاہ کیا ہے جس پر عدالت نے انہیں باقاعدہ درخواست دینے کاکہا جس پرJIT نے درخواست دی جس پر12جون کوسماعت ہوئی۔JIT پر بہت سارے لوگوں نے بہت باتیں کیں لیکن میاں شہباز شریف اور انکی کابینہ خاموشی سے تماشا دیکھ رہی تھی صرف راناثناءاللہ میدان عمل میں تھے یہ کابینہ کی حکمت عملی تھی یا اپنے آپ کو پانامہ سے دوررکھنے کی کوشش۔شہبازشریف نے چپ کاروزہ توڑا تو پھر برس پڑے اورکہہ دیا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ صرف ایک خاندان پر انصاف کی بندوق تان لینا عدل نہیں۔ بلاتفریق احتساب کے بغیر ملک آگے نہیں چل سکتا۔ پاکستان کی خاطرانتقامی کاروائیوں کو خیربادکہہ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے بچے کواس طرح بٹھایا جیسے اس نے کرپشن کی ہو۔ پنجاب بنک، اوورسیز فاﺅنڈیشن، اوگرا، نندی پور منصوبے میں لوٹ مار اور60 ملین ڈالر سوئس بنکوں میں پہنچانے والوں کوکوئی پوچھنے وال انہیں ۔ خادم اعلیٰ نے بہت کچھ کہہ دیاکہ بیواﺅںکا مال لوٹنے والے لوٹ مارکے پیسے سے جہاز اور فیکٹریاں بنانے والے بھی موجود ہیں۔ اربوں کے قرضے معاف کرانے والے پارسابن کرکرپشن کیخلاف لیکچر دے رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف درددل اورجذباتی انسان ہیں بڑی بڑی باتیں کہہ دیتے ہیںجن پرعمل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور آصف زرداری کوگھسیٹنے کے بیانات انکے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ دراصل سیاستدان بیانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگوں کوتیارکیاجائے اور اپنے ساتھ ملایا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ایئر مارشل اصغر خان 70ءکی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹوکوکوہالہ کے پل پر لٹکانے کی بات کرتے تھے میں نے ان سے15جنوری1985ءکو ایک ملاقات میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بیان علامتی طور پر ہوتے ہیں اور اس کا مقصد لوگوں کو خوف سے نکالنا ہوتا ہے۔اس لئے میاں شہبازشریف کے بیانات کا مقصد بھی خوف سے نکالنا تھا عملی طور پر تو جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہ تو قانون کے ذریعے ہوتا ہے۔ بحرحال JITکے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے سینیٹر نہال ہاشمی بھرپور تقریرکر چکے ہیں سینیٹ سے استعفیٰ واپس لینے کے ساتھ ساتھ اپنی تقریرکا بھی دفاع کر رہے ہیں۔ طلال چوہدریJITکو قصائی کی دکان قرار دے رہے ہیں۔آصف کرمانی جیمزبانڈکی فلم کی بات کہہ رہے ہیں۔راناثناءاللہ بھی کسی سے کم نہیں جبکہ عابد شیر علی تو آگ برسانے میں مصروف ہیں انہوں نے آصف زرداری ، عمران خان، سید خورشید شاہ سمیت کسی کو بھی نہیں بخشا۔ سیاست میں عجیب رواج شروع ہوگیاکہ ایک دوسرے کو بھرپور برابھلاکہا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اب اداروں کی باری بھی آگئی ہے۔ سپریم کورٹ اورJIT پر شدید تنقیدکی جا رہی ہے۔گتھم گتھاکی حالت ہو چکی ہے۔ ہرطرف خرابی ہی خرابی نظرآرہی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے ۔ شریف خاندان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پانامہ لیکس سامنے آگئیں اورعمران خان کودھرنا سیاست کے بعد نئی زندگی مل گئی۔ وزیراعظم نے دومرتبہ قوم سے خطاب کیا اور قومی اسمبلی میں بیان دیا لیکن معاملہ حل ہوتا ہوا نظر نہ آیا تو انہوں نے جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔ اپوزیشن نےToRsپر جوڈیشل کمیشن کو ماننے سے انکارکردیا۔ بعدازاں اپوزیشن نے مشترکہ ToRsدئیے جسکوحکومت نے ماننے سے انکارکردیا۔اب حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں JITجس طرح تفتیش کررہی ہے وہ اپوزیشن کے ToRsسے بھی بہت آگے جاچکی ہے حکومت کوحدیبیہ مل کودوبارہ کھولنے پراعتراض تھالیکن وہ بھی JITکی تفتیش کا حصہ بن چکاہے۔اس کے علاوہ میاں شریف(مرحوم) اورمیاں عباس شریف (مرحوم) کے1969-70کے دولت ٹیکس گوشوارے اور ٹیکسی ریٹرنزکی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے وزیراعظم کی والدہ، بیٹی اورمیاں شہبازشریف کی بیوی کے ٹیکس اوردولت گوشوارہ کوبھی چیک کیاجارہاہے حدیبیہ انجنیئرنگ،حدیبیہ پیپرملز،چوہدری شوگرملزاوررمضان شوگرملزکے ٹیکس پیپربھی حاصل کرلئے گئے ہیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی 1981-82 کے بعدکی ٹیکس دستاویزات بھی FBR سے لے لی گئی ہیں۔اس طرح وہ کچھ بھی ہورہاہے جوکہ اپوزیشن کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔ سیاست بڑی عجیب چیزہے اگرآپ وقت پرصحیح فیصلہ نہیں کرتے تو بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی گئی توچند مطالبات تھے جس کو صدر ایوب نے ماننے سے انکارکردیا جب تحریک زوروں پرچلی توحکومت کے مطالبات تسلیم کرلئے لیکن اپوزیشن نے کہاکہ اب ہمارے مطالبات اورزیادہ ہیںاسی طرح ذوالفقارعلی بھٹوکے خلاف قومی اتحادکی تحریک میں ہواتھا۔ بدقسمتی سے دونوں ادوار میں نتیجہ مارشل لاءپرجاکرختم ہواتھا۔ میاں نوازشریف نے اپوزیشن کےToRsتسلیم کئے ہوتے تواتنی خرابی نہ ہوتی۔ شریف خاندان کاحساب کتاب اورپیشیاں نہ ہوتیں بدقسمتی سے تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔
عمران خان اورشیخ رشیدکسی بھی متوقع رپورٹ کودیکھتے ہوئے دھرناپلس اور لوگوں کوسڑکوںپرلانے کی بات کررہے ہیں جوکسی طرح بھی قابل تحسین نہیں۔الیکشن کاسال شروع ہوچکاہے سیاسی پارٹیوں کوالیکشن کی تیاری کرنی چاہئے۔بلاشبہ کرپشن کے خلاف آوازاٹھانی چاہئے اورسپریم کورٹ پراعتمادکرتے ہوئے پانامہ لیکس کے فیصلے کاانتظارکرناچاہئے۔JITکے معاملے پر حکومت اوراپوزیشن کوبیان بازی نہیں کرنی چاہئے۔JITکو سپریم کورٹ نے نامزدکیاہے اس لئے اگرکسی کوبھی کوئی اعتراض ہے توسپریم کورٹ کادروازہ کھلاہے ۔سوموارکوجہاں حسین نوازکی درخواست کی سماعت ہوئی وہاںJITکی مشکلات پربھی بات ہوئی ہے۔خوش آئندبات یہ ہے کہ خرابیاںنظرآنے کے باوجودجمہوریت آگے بڑھ رہی ہے ۔ وزیراعظم نوازشریف کے تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے تاریخ رقم ہونے جارہی ہے اس سے قانون کی حکمرانی ثابت ہوگی اورانصاف کابول بالاہوگاجس سے ثابت ہوگاکہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔ وزیراعظم کا پیش ہونا انتہائی غیرمعمولی اورتاریخی واقعہ ہے اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ہورہاہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری تشریف لائے ہیں تو انہوں نے نئی بات کہہ دی ہے کہ JIT مسلم لیگ (ن)کا الیکشن سیل ہے خداکاخوف کرنا چاہئے۔ وزیراعظم، وزیرخزانہ، حسین نواز، حسن نواز، نیشنل بنک کے صدراوردوسرے لوگ پیش ہورہے ہیں یہ کوئی ڈرامہ یا فلمی کہانی نہیں بن رہی بلکہ حقیقت ہے ۔ شریف خاندان کے اعتراضات کو ڈرامہ بازی کہناکسی طرح بھی درست نہیں۔سپریم کورٹ اورJITکے ساتھ مذاق بازی بند ہونی چاہئے اداروں کا احترام کرنا چاہئے۔اس میں ملک کا بھلاہے قوم کا فائدہ ہے اور جمہوریت کا سفر بڑھانے کا ذریعہ۔