”ماہ مقدس نیت اور ایمانداری کے تناظر میں“

قارئین کرام! ماہ صیام الحمد اللہ خیروخوبی سے جاری و ساری، روزہ داروں کی دعائیں اور عبادات نقطہ عروج پر ہیں یہ ہم پرخطا و گناہگار مسلمانوں کی خوش قسمتی کی انتہا ہے کہ رحمت العالمین کے صدقے میں ہمیں قرب الٰہی کا ایک اور ماہ ”ماہ صیام“ عطا ہوا ہے بلکہ دوہری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ اسی بابرکت مہینے میں ہم زمین کے باسیوں کیلئے آسمان سے روشن کتاب بھی اتری.... بوند بوند اترنے والا وہ نور جو ہادی برحق کی مبارک تجسیم میں ڈھل کر چشمہ رواں ہو گیا قیامت تک انسان اس سے بلکہ اس آب حیات سے اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے مگر جس کا نور سرور نزول تر ہوتا رہے گا یہ وہ کتاب ہے جس کے ایک ایک لفظ کے ایک ایک اعراب کا بوجھ اٹھانے کیلئے ایک ایک پہاڑ ناکافی تھا پہاڑ منکر ہو گئے کہ کوئی حرف ان پر اترا تو وہ ریزہ ریزہ اور چورا چورا ہو جائیں گے جبکہ یہ بوجھ، یہ بار گراں ختم المرسلین نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیا، اپنی پیاری امت کی خاطر ہم مٹی کے مٹھیوں کی خاطر تاکہ ہم اس کی دکھائی ہوئی روشن لکیر کی سیدھ میں چلتے جائیں اور بھٹک نہ جائیں مگر صد حیف کہ ہمیں یہ ”فخر“ یہ ”روشنی“ راس نہ آئی پوری دنیا کے اربوں مسلمانوں نے مل کر بھی اس پرنور ہدایت نامے کی ایک بھی سطر کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کی تکلیف گوارہ نہ کی یا شاید اس لئے بھی کہ ہم جان بوجھ کر اس کی گہرائی میں جانا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارا مذہب جہاں ہمیں زندگی کی لاکھوں، نعمتیں، سہولتیں اور دعائیں عطا کرتا ہے وہاں ہمیں خود کو اس کے کسی ایک بھی قول پر ڈھالنا حد درجہ مشکل اور بوجھل کام نظر آتا ہے ہم ناظرہ قرآن پڑھ کر فارغ ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر اس کی محض ایک بھی سطر کے اسرار کو جاننے سمجھنے کلئے بیٹھ جائیں تو قیامت کے اٹھنے تک اٹھ نہ سکیں اسی طرح اپنے مذہب کے باقی ارکان بھی جسے تیسے کر کے ہم پورے کر لیتے ہیں مگر ان کی اصل روح تک نہیں اتر پاتے جو کہ روحانی طور پر حد درجہ ایمانداری اور نیک نیتی کا کام ہے حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پورا مذہب ہی نیت اور ایماندارپر منحصر ہے اس کے پانچوں ارکان کی ادائیگی کے وقت اللہ تعالیٰ کا کوئی نمائندہ یا کارندہ ظاہر طور پر ہمارے سر پر وجود نہیں ہوتا تاہم انسان کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے نیت کی بنیاد پر کر دیئے جاتے ہیں روزہ ان ارکان میں دوسرے نمبر پر ہے اور ہمارے ذاتی خیال میں اسے اس لئے دوسرے نمبر پر رکھا گیا تکہ اس سے پہلے ہمارے لئے نماز کو لازم قرار دے دیا جائے یوں روزہ رکھ کر عبادت کو اس کے وسیع تر مفہوم میں ادا کرنے کا اہم پر احسان کیا گیا ہے خود سوچیئے جو عبادت خالی پیٹ سے، خشک لبوں کے فسق و فجور سے دور کرہ کر، گالی گلوج سے پرہیز کرکے بلکہ ہر قسم کی بدی بددیانتی سے بندش کے بعد کی جائے وہ درجے میں اس عبادت کے برابر کیسے ہو سکتی ہے جو کہ تاجر اپنا اور اپنی تجوری کا پیٹ بھرنے کے بعد کرتا ہے، بدکار اپنی بداعمالیوں پر پردہ پوشی کیلئے زکوٰة خیرات نکال دیتا ہے، جھوٹا جھوٹ کو چھپانے کیلئے بھاگتے دوڑتے دو نفلی عبادت کر لیتا ہے رشوت خور رشوت کے نوٹوں کو جیب میں بھر کر راستے میں نماز کیلئے اپنے دفتر سے دور کسی مسجد میں اتر جانا ہے یاد رکھیئے جس مفہوم میں ہم اپنے مذہب کو برتتے ہیں یا برت رہے ہیں یہ ظاہر داری اور دکھاوا اس کے اس مفہوم سے قطعی طور پرمتصادم بلکہ متضاد ہے جو نزول کے وقت اس کے ماخذ و مقصود تھا مذہب اگر ہمارے کردار میں نہیں اترا، اس کی چھاپ ہمارے کردار پر نہیں اتری تو ہم یقیناً اکارت عبادت کر رہے ہیں، ہم بدنیت ہیں اور مذہب کے ساتھ غیر ایماندار ہیں رکن کوئی بھی ہو اس کی بجا آوری کا انحصار ہمارے خلوص نیت پر ہے روزہ محض فاقے کا نام نہیں بلکہ ہر قسم کی بدی برائی سے افاقے کا نام ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ قرب الٰہی یا عبادت کا حصہ ہر گز نہیں ہے بھلا ہم مٹی کے بوتوں کے معدوں کی جانچ پڑتال اور بھوک ہڑتال سے اللہ تعالیٰ کو کیا علاقہ ہو سکتا ہے؟ نماز بھر سراسر ہمار نیت کا معاملہ ہے یہ ایک غائب الوجود ہستی پر ہمارے اندھے اعتبار کا معجزہ ہے عبادت میں دراصل حد درجہ نیک نیتی اور ایمانداری درکار ہوتی ہے ورنہ محض اپنی اغراض کی خاطر سجدہ ہوگا پر ٹکریں مارنے کو خالص عبادت نہیں کہا جا سکتا اسی طرح زکوٰة ہمارے مذہب کا اہم رکن ہے جس کی اصل روح کو تصویر اور تشہیر کے ذریعے زخمی کر دیا جاتا ہے حج کی ادائیگی کو بھی اگر ان نیت اور ایمانداری کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی قابل قبول ہو سکتی ہے ورنہ لباس کی یکسانیت اور عبادت کے اکٹھ کو حج نہیں کہا جا سکتا میدان عرفان کے منظر کو ہمارے نزدیک چڑھانے کا میدان حشر کا منظر نامہ کہا جا سکتا ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اس بڑے حساب والے دن بھی ایسی ہی افراتفری ہوگی، انسانوں کے آپس میں رشتوں ناطوں کے نابود ہونے کا بعنیہ ایسا ہی منظر ہوگا اور یہ کہ اس روز احکامات ربی نیتوں کے حوالے سے صادر ہونگے سو اس تمام تر صورتحال کے مدنظر ہم نے ذہن میں یہ رکھنا ہے کہ بات صرف ماہ صیام کی نہیں، ذائقہ و طعام پرپابندی کی نہیں بلکہ زندگی کو ہر سطح پر انتہائی دیانتداری سے برتنے کی ہے اگر ہم اپنی ذات کے ساتھ، کائنات کے ساتھ اور کائنات بنانے والے کے ساتھ ایماندار نہیں ہیں تو اپنے مذہب کے ساتھ کسی طرح ایماندار اور نیک نیت ہو سکتے ہیں؟ اگر ہم نے زندگی کو ایمانداری، نیک نیتی اور راستی کے ساتھ گزرانا ہے تو پھر روشنی اسی کتاب حکمت و ہدایت سے لینی ہوگی جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:....
”بیشک یہ عزت والی چمکتی ہوئی کتاب ہے ایمان والوں کیلئے سراسر ہدایت اور شفاءمگر باطل کو اس کی طرح راہ نہیں ہے نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے ۔
اے ایمان والوں جب اسے پڑھ چکو تو اس کا اتباع کرو اس کی باریکیاں تم پر ظاہر کرنا ہمارے ذمہ ہے (القرآن)

ای پیپر دی نیشن