اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ریاستی ادارے اس معاملے میں مانگی گئی دستاویزات میں نہ صرف ردوبدل کرر ہے ہیں بلکہ اس کے ریکارڈ کو تبدیل بھی کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت کی بات پیر کو جے آئی ٹی کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی تحریری درخواست میں کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ریاستی ادارے ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیر کر رہے ہیں، جے آئی ٹی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا گیا، جسٹس اعجاز نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رکاوٹوں کی شکایت کی ہے، جسٹس عظمت نے کہا کہ درخواست کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے، درخواست میں تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا گیا ہے کہ تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ’رکاوٹیں‘ کن اداروں یا شخصیات کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو لکھی گئی اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پانامہ کیس کی 60 روز کے اندر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔ سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پارٹی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے الزامات کے بارے میں جواب داخل کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو پھر ایسے افراد کی نشاندہی کریں جو تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر درخواست کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ان کی طرف سے یہ تصویر لیک نہیں کی گئی تاہم اس بارے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تصویر لیک کرنے والے مجرم کی 24 گھنٹے میں نشاندہی کر لی گئی اور اسے اس کے متعلقہ ادارے میں واپس بھیج دیا گیا ہے، رپور ٹ میں متعلقہ شخص اور اس کے ادارے کا ذکر نہیں کیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں ویڈیو ریکارڈنگ کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ضابطہ فوجداری کے تحت صرف اسی صورت میں کسی شخص کا بیان ویڈیو کے ذریعے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اگر اس کو لکھنا مقصود ہو تاکہ کوئی غلطی نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور شہادت اس ویڈیو ریکارڈنگ کو اس شخص کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا اور وہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی صرف ایک مخصوص مدت کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے صاحبزادے کی طرف سے اس معاملے میں دائر کی گئی درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا اور حسین نواز کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں 14 جون کو دلائل دے سکتے ہیں۔ درخواست کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کا نام لیے بغیر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے ایک شخص کے جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کروانے کے بعد اس کی طرف سے جے آئی ٹی کے رویے کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھا جانے والا خط میڈیا کی زینت بن گیا؟ سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے چھ ارکان کو سپریم کورٹ کی عمارت کے مرکزی دروازے سے سخت سکیورٹی کے حصار میں کمرہ عدالت میں لایا گیا۔ اس موقع پر صحافیوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے سوالات بھی کیے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم نے سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو 13 جون کو طلب کرلیا ہے اور انہیں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کی تحقیقات کے حوالے سے دستاویزات بھی ساتھ لانے کو کہا ہے۔ رحمان ملک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت حدیبہ پیپر ملز کی تحقیقات کی تھیں جب وہ ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔