کہا جاتا ہے کہ بسااوقات ایک تصویر کوئی پیغام دینے کے حوالے سے ہزار لفظوں پر مشتمل مضمون سے بھی زیادہ مو¿ثر ثابت ہوتی ہے۔پیر کی شب سے ایک وڈیو کلپ گردش کررہی ہے۔ عمران خان صاحب کو اس کلپ میں ایک نجی پرواز کے ذریعے سعودی عرب کے ایئرپورٹ پر اُترتے دکھایا گیا ہے۔ ان کے پاﺅں میں جوتے نہیں ہیں۔ جوتوں کی عدم موجودگی سے تاثر یہ پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے کہ شاید ان کے عمرے کی خاطر ننگے پاﺅں ہوا سفر کسی منت یا ٹوٹکے کا اظہار ہے۔مجھے لیکن مذکورہ کلپ کی اس توجیہہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔اہم ترین بات جو میں نے نوٹ کی وہ ان کے جہاز کے باہر چند سعودی حکام کی موجودگی تھی۔ مجھے خبر نہیں کہ انہیں خوش آمدید کہنے کو موجود افسروں کا رُتبہ کیا ہے۔ واضح بات یہ ہے کہ انہیں کسی نہ کسی سطح کا ریاستی پروٹوکول فراہم کیا گیا۔ ایسا پروٹوکول ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کو سعودی عرب میں نصیب نہیں ہوتا۔ خاص کر اس وقت جب وہ کسی حکومتی منصب پر فائز نہ ہوں۔ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان صاحب کو پاکستان کے ممکنہ وزیر اعظم کی حیثیت میں سعودی سرزمین پر خوش آمدید کہا گیا۔خان صاحب کے اس Statusکا اثبات راولپنڈی کے نور خان ایئربیس پر بھی ہوا۔ عمرے کی خاطر وہ نجی پرواز میں اپنے ایک دیرینہ دوست کو بھی ساتھ لے جانا چاہ رہے تھے۔ وہ دوست زلفی بخاری کے نام سے مشہور ہیں۔ غالباََ برطانوی شہری ہیں لیکن ہمارے امیگریشن حکام کی نظر میں ان کا نام ECLپر موجود تھا۔ تحریک انصاف کے چاہنے والوں کا اصرار تھا کہ ECLپر کسی اور زلفی بخاری کا نام تھا۔ بہرحال خان صاحب نے ایک دو فون گھمائے اور زلفی بخاری ان کے ہمراہ پرواز کر گئے۔ کوئی بڑا قضیہ کھڑا نہ ہوا۔خان صاحب کا سعودی عرب میں سرکاری خیرمقدم مجھے ایک دوست کے اس دعویٰ کو مزید سنجیدگی سے لینے پر مجبور کررہا ہے جو گزشتہ جمعے میرے ساتھ بیٹھے اس نے کیا تھا۔ میرے اس دوست کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ”خبروالوں“ کے ساتھ مگر اس کی گہری دوستیاں ہیں۔ ان سے حاصل کی معلومات کو میرے سامنے رکھ کر مجھے ”تم کہاں کے صحافی ہو؟“ پوچھتا دکھائی دیتا ہے۔ میں ڈھیٹ بنا کج بحثی سے اس کا ٹھٹھہ اُڑانے میں مصروف رہتا ہوں۔میرے دوست کا اصرار تھا کہ اس کی بہت محنت سے جمع کی معلومات کے مطابق عمران خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف کو 25جولائی 2018کے روز ہوئے انتخاب میں قومی اسمبلی کی کم از کم 120نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔ یاد رہے کہ اس دن قومی اسمبلی کی 272نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہونا ہے۔ ان میں سے 120کا حصول آپ کو سادہ اکثریت مہیا نہیں کرتا۔ ان نشستوں کے ساتھ مگر تحریک انصاف قومی اسمبلی کی واحد اکثریتی جماعت بن جائے گی۔آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے امیدوار اس میں شامل ہونے کو ترجیح دیں گے ۔ ان کی تعداد دس تک بھی محدود رہے تو خان صاحب کو حکومت بنانے کے لئے کسی چھوٹی جماعت سے مخلوط حکومت بنانے کے لئے مذاکرات کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ یہ جماعت بلوچستان سے حال ہی میں ابھرنے والی بلوچستان عوامی پارٹی بھی ہوسکتی ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم کا ایک دھڑا یا مصطفےٰ کمال کی بنائی پاک سرزمین پارٹی کی ترجیح بھی تحریک انصاف سے الحاق ہوگی۔مزید لکھنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ 120کا جو عدد میں نے لکھا ہے ذاتی طورپر اس سے میرا اتفاق ہرگز ضروری نہیں۔ یہ عدد مجھے ایک ایسے دوست کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جو ”خبر والوں“ سے گہرے روابط رکھتا ہے۔ فیلڈ میں جائے بغیر نجومیوں کی طرح مجھے انتخابی عمل کے بارے میں پیش گوئی کا مرض لاحق نہیں ہے۔اتفاق مگر یہ بھی ہواکہ پیر کی دوپہر میں خط بنوانے ا پنے حجام کے پاس گیا۔ میں کئی برسوں سے اس کاگاہک ہوں۔ حجام حضرات بہت باتونی ہوتے ہیں۔ میں نے اسے مگر خبردار کررکھا ہے کہ میں جب اس کے رحم وکرم پر ہوں تو وہ مجھ سے سیاسی سوالات نہ کیا کرے۔ اپنے کام پر توجہ دے۔ پیر کے دن لیکن وہ خود پر قابو نہ رکھ پایا۔میرے حجام کا گرم حمام بھی ہے۔ گاہکوں کا وہاں ہجوم رہتا ہے۔ محفل بازی کا اڈا ہے جہاں عموماََ ریستورانوں پر کام کرنے والے یا کنسٹرکشن کے شعبے سے متعلق افراد موجود ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ سے جنوبی پنجاب تک کے لوگ اس کے مستقل گاہک ہیں۔میرے چہرے پر شیونگ کریم لگاتے ہوئے اس نے معذرت خواہانہ انداز میں اعتراف کیا کہ وہ اپنی دوکان پر آئے لوگوں کی باتوں سے بہت کنفیوژ ہوچکا ہے۔ اس کے گاہکوں کی اکثریت یہ تو طے کر بیٹھی ہے کہ انتخابات کے روز سے چند دن قبل نواز شریف،محترمہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر جیل میں ہوں گے۔ یہ مگر طے نہیں ہوپارہا کہ ان کے جیل چلے جانے کے بعد نون کی ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کے ساتھ کیاہوگا۔ کئی گاہکوں کا اصرار ہے کہ اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ اکثریت مگر یہ سوچ رہی ہے کہ انتخابی نتائج کی صورت میں ”کھچڑی“ ہی پکی نظر آئے گی۔مختصراََ مجھے وہ یہ بتارہا تھا کہ کوئی ایک جماعت آئندہ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی۔ بالآخر مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ اس کے سربراہ لیکن ”عمران خان صاحب نہیں ہوں گے“۔اس کی ”رپورٹنگ“ کے اختتامی کلمات نے مجھے چونکا دیا۔ حیران ہوکر پوچھنے کو مجبور ہوا کہ عمران خان صاحب وزیراعظم کیوں نہیں ہوں گے۔ اس نے قینچی روک کر تھوڑی دیر کو سوچا اور جواب دیا کہ ”وہ موڈی شخص ہیں۔ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا“۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ وغیرہ۔ یہ سب کہنے کے بعد وہ بہت اشتیاق سے میرے جواب کا منتظر رہا۔ میں نے درشتی سے اسے اپنے کام پر توجہ دینے کو مجبور کیا۔ دل ہی دل میں لیکن ”ہم چپ رہے ہم ہنس دئے“ والی کیفیت میں دکان سے باہر آگیا۔ گاڑی تک پہنچتے ہوئے لیکن 120کا عدد میرے دماغ میں روشن ہوگیا جو جمعے کی رات مجھے ایک باخبر دوست نے بتایا تھا۔
٭٭٭٭٭