اسلام آباد (نامہ نگار+ نیشن رپورٹ) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے ملک کے اربوں اور کھربوں روپے لوٹے وہ گزشتہ پندرہ پندرہ سال سے گھر بیٹھے عیش کررہے ہیں اور جس نے رات دن ایک کر کے پاکستان کے اندھیرے دور کیے اور روشنی لایا وہ مقدمے بھگت رہا ہے۔ اگر فیئر ٹرائل ہے تو پھر مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں مرضی کا وکیل کروں۔ ان خیالات کا اظہار نواز شریف نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نوازشریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ریفرنسز کے فیصلہ کی تاریخ مقرر کرنا قبل از الیکشن دھاندلی کے مترادف ہے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو اتوار کے روز بلایا تھا اور ان سے کہا کہ ہم احتساب عدالت کو کہہ رہے ہیں کہ وہ ہفتہ کے روز بھی کام کرے اور عدالتی اوقات کے بعد بھی کام کرے اور جلد سے جلد یعنی چار ہفتے میں اور الیکشن سے قبل فیصلہ بھی سنا دیا جائے اور اوپر سے مانیٹرنگ جج بھی بٹھایا ہوا ہے جو باقاعدہ اس مقدمہ کی پیروی کررہا ہے۔ خواجہ صاحب نے وہیں کہہ دیا کہ میرے لیے اس طرح سے مقدمہ لڑنا ممکن نہیں ہوگا مجھے مقدمہ سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے آگے سے کہا کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث نے جو باتیں کی ہیں میں ان سے متفق ہوں اور اس طرح کے حالات کے اندر اس طرح مقدمہ چلانا فیئر ٹرائل کے بالکل خلاف ہے۔ اگر فیئر ٹرائل ہے تو پھر مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں مرضی کا وکیل کروں اور میرا مرضی کا وکیل ہونا چاہیے۔ اس سے مجھے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔ نواز شریف کا ایک سوال پر کہنا تھا کہ ای سی ایل پر میرا نام ڈالنے کی بات ہو رہی ہے ڈالنا ہے تو بھائی ڈال دیں ای سی ایل پر نام لیکن دوسری طرف پرویز مشرف کو ہر قسم کی رعایت دینے کی اخباروں میں بات چیت ہو رہی ہے اور یہ بھی چیف جسٹس کی طرف سے کہا گیا کہ وہ آئیں اور بالکل خوفزدہ نہ ہوں جس نے آئین توڑا اسے خوش آمدید (ویلکم) کہا جا رہا ہے اور جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اس کو ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے جس نے ججز کو گرفتار کیا اس کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے اور جس نے پاکستان کے اندھیرے دور کیے اس کو ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے جو پاکستان میں اندھیرے لایا اور جس نے پاکستان میں دہشتگردی شروع کروائی اس کو گلے کےساتھ لگایا جا رہا ہے اور جس نے دہشتگردی کو ختم کیا اس کو ای سی ایل پر ڈالا جا رہا ہے جس نے پاکستان کی اتنی خدمت کی اس کو ای سی ایل پر ڈال رہے ہو اور اس کو احتساب عدالت میں سو سو پیشیاں بھگتوا رہے ہیں اور ایک پائی کی کرپشن، رشوت، خوردبرد آج تک ثبوت تو دور کی بات ہے کوئی الزام تک بھی نہیں ہے وہ سو سو پیشیاں بھگت رہا ہے اس کی بیٹی سو سو پیشیاں بھگت رہی ہے اور جو کروڑوں اربوں روپے کھا گئے ہیں ان کے گزشتہ پندرہ پندرہ سال سے مقدمے ہی آگے نہیں بڑھ رہے۔ نام موجود ہیں میڈیا کے سامنے وہ شکلیں موجود ہیں۔ وہ لوگ موجود ہیں یہ لوگ گزشتہ پندرہ پندرہ سال سے گھر میں بیٹھ کر عیش کررہے ہیں، انہوں نے اس ملک کے اربوں کھربوں لوٹے ہیں اور جس نے دن رات ایک کرکے پاکستان کے اندھیرے دور کیے اور روشنی لایا آج وہ مقدمے بھگت رہا ہے۔ نواز شریف نے کہا نیب تو اپنا الزام ہی ثابت نہیں کرسکا۔ ہمارے خاندان کا قیام پاکستان سے قبل بڑا کاروبار تھا۔ صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی صفائی میں کوئی گواہ پیش کیوں نہیں کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم تو اپنی صفائی میں سب کچھ لائے ہیں نیب تو اپنا الزام ہی ثابت نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا اثاثوں کا پوچھنے والے خدا کا خوف کریں ہمارے خاندان کا قیام پاکستان سے قبل بڑا کاروبار تھا۔ این این آئی کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران میں اور مریم 100 پیشیاں بھگت چکے ہیں تاہم میں پیشیوں سے جھک جا¶ں گا یہ سمجھنا بھول ہے ۔
نوازشریف
اسلام آباد (نامہ نگار+ وقائع نگار+ نیشن رپورٹ+ آئی این پی) ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں عدالت نے نواز شریف کو وکیل مقرر کرنے کے لئے 19جون تک کا وقت دے دیا ہے۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو ہدایت کی خواجہ حارث راضی ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ نیا وکیل کرلیں۔ نواز شریف نے کہا کہ یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں کہ ایک وکیل نے کیس پر 9ماہ محنت کی ہے، خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں کہہ دیا تھا کہ وہ ہفتہ، اتوار کو کام نہیں کریں گے، سو کے قریب پیشیاں ہو چکی ہیں اس کیس میں، اب کیا 24/7کیس چلانا ہے؟ کیا ایسی کوئی اور مثال موجود ہے؟ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ٹرائل کے اس مرحلے پر نیا وکیل مقرر کرنا ممکن نہیں، ہفتے اور اتوار کو یا عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد سماعت نہیں ہونی چاہئے، ہم سوموار سے جمعہ اس عدالت میں پیش ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ سے میرا ایک کیس عدم پیروی پر خارج ہو گیا، شرجیل میمن کیس میں ایک ملزم کا وکیل ہوں، پیش نہ ہونے پر دس ہزار روپے جرمانہ ہوا۔ منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو احتساب عدالت کے جج نے میاں نواز شریف سے استفسار کیا کہ آپ نے دوسرا وکیل رکھنا ہے یا خواجہ حارث کو ہی کہا ہے ؟ ابھی تک خواجہ حارث کی کیس سے دستبرداری کی درخواست منظور نہیں کی، جج محمد بشیر نے نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے نیا وکیل مقرر کرلیا یا خواجہ صاحب سے بات کی ہے۔ جس پر نواز شریف نے کہا میں نے خواجہ حارث سے ہی بات کی ہے، ان کی جگہ نیا وکیل ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں، انہوں نے 9 ماہ اس کیس پر محنت کی ہے، ہم تو روزانہ عدالت پیشی کیلئے لاہور سے آتے ہیں، ماسوائے باہر جانے کے کبھی استثنیٰ نہیں مانگا، صبح سحری کر کے پیشی کیلئے لاہور سے نکل پڑتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا اس کیس میں 100کے قریب پیشیاں بھگت چکے ہیں، ایسے کیس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جج محمد بشیرنے کہا یہ بات درست نہیں آپ نے بیرون ملک کے علاوہ بھی استثنی مانگا تھا۔ نواز شریف نے کہا ہم ہفتے میں 6روز پیشیاں بھگتے ہیں، باقی کام ایک دن میں کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں، ایک وکیل نے نو ماہ محنت کی ہے کیس پر، خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہفتہ اتوار کام نہیں کریں گے۔ اب کیا 24/7 کیس چلانا ہے؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ حساس کیس ہے، موکل کا حق ہے کہ اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرے۔ سردار مظفر عباسی نے جج کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ وکلا صفائی یا ہم آپ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے، کورٹ کو آپ نے ریگولیٹ کرنا ہے، ابھی تو سپریم کورٹ کا آرڈر بھی نہیں ملا، آرڈر ملنے کے بعد عدالت ہفتے اتوار کو سماعت چلانے پر زور دیتی تو یہ اپنے تحفظات عدالت کو بتا سکتے تھے، اگر خواجہ حارث نہیں ہیں تو امجد پرویز آج حتمی دلائل دے سکتے ہیں، جس کے بعد عدالت نے سماعت میں پندرہ منٹ کا وقفہ کر تے ہوئے کہا کہ تھوڑی دیر بیٹھ جاتے ہیں، اورسپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی منگوا کر پہلے اسے پڑھ لیتے ہیں۔ نوازشریف نے کہا کہ ایسا کیس پہلے نہیں ملتا، ایسا نہیں ہوا ہے کہ مانیٹرنگ جج لگائے دئیے جائیں، جج محمد بشیر نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے، اور بھی کیسز ہیں جن میں مانیٹرنگ جج تعینات ہوئے ہیں، ایسے کیسز بھی ہیں جن میں دو ماہ کا بھی وقت دیا گیا، نوازشریف نے کہا کہ دو ماہ کا وقت دیا گیا ہوگا لیکن کیس دس سال تک چلا ہوگا، ہمارا کیس اس سپیڈ کے ساتھ چل رہا ہے، جج محمد بشیر نے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں ہے کہ سپیڈی ٹرائل ہورہا ہے، سپیڈی جسٹس، نوازشریف نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ آبزرویشن دی جائیں اور قدغن لگائی جائے، فاضل جج نے کہا کہ کون سی آبزرویشن ہے؟ ہمیں دکھائیں، نوازشریف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ریمارکس دئیے گئے کہ تشہیر کیلئے اہلیہ کی عیادت کا کہتے ہیں، اس طرح کے ریمارکس دل دکھانے والے نہیں؟ میں نے تو ان سے کوئی درخواست نہیں کی، عدالت نے سماعت میں دوسری بار وقفہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو ہدایت کی کہ وہ اپنے وکیل خواجہ حارث سے رابطہ کر لیں۔ وقفے کے بعد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواجہ حارث سے رابطہ ہوا ہے، وہ مصروف ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی فائلیں ڈائیوو بس پر رکھوائیں تو چار گھنٹے میں یہاں پہنچ جائیں گی، جج احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو ہدایت کی کہ اگر خواجہ حارث راضی ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ سوموار 18جون تک کوئی نیا وکیل مقرر کر لیں، جج احتساب عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں چار ہفتوں کا کہا گیا ہے، ہفتے کو سماعت کا اختیار اس عدالت کو دیا گیا ہے، ہفتے کے روز کچہری لگتی ہے، نواز شریف نے کہا کہ اس عدالت پر چھوڑا ہے تو پھر انہیں چار ہفتوں کا بھی نہیں کہنا چاہئے، جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ خواجہ صاحب خود ہی کہا کرتے تھے وہ شام آٹھ بجے تک رک سکتے ہیں، عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت 14جون تک اور العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت 19جون تک ملتوی کردی۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز 14جون کی سماعت پر بےشک پیش نہ ہوں۔ آئی این پی کے مطابق احتساب عدالت نے نواز شریف کو وکیل مقرر کرنے کیلئے 19 جون تک کی مہلت دے دی۔ دوران سماعت جج محمد بشیر اور نواز شریف کے درمیان مکالمہ، نواز شریف بولے سپریم کورٹ میں تشہیر کیلئے اہلیہ کی عیادت کے ریمارکس دیئے گئے چیف جسٹس کے ریمارکس سے دل دُکھا، کیا یہ ریمارکس دل دکھانے والے نہیں؟ سپریم کورٹ کو احتساب عدالت سے کیس واپس اپنے پاس لے لینا چاہئے چاہیں تو پھانسی پر لٹکائیں یا جیل بھیجیں۔ مزید برآں اسلام آباد ہائی کورٹ ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں حتمی دلائل موخر کرنے کی نواز شریف کی درخواست پر سماعت 20جون تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت عالےہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی، عدالتی کاروائی شروع ہوئی توخواجہ حارث کے ایسوسی ایٹ سعد ہاشمی عدالت میں پیش ہوئے اور خواجہ حارث کی طرف سے وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست عدالت میں پیش کی، نےب کے پراسکےوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتاےا کہ خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کا آرڈر ملنے سے پہلے ہی وکالت نامہ واپس لے لیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تو ویسے ہی یہ درخواست غیر موثر ہو گئی ہے پراسیکیوشن ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں حتمی دلائل مکمل کر چکی ہے اس پر فاضل جسٹس محسن اختر کےانی نے استفسار کےا کہ اگر وکیل نہ آئے تو درخواست پر کون دلائل دے گا؟ کیا نواز شریف خود عدالت آئیں گے؟ فاضل جسٹس عامر فاروق نے نےب کو ہداےت کی کہ حکم امتناع نہ ہونے کے باعث احتساب عدالت سماعت جاری رکھے، عدالت نے کیس کی سماعت 20 جون تک ملتوی کردی ہے۔
نواز شریف