کاکروچ یا لال بیگ کسی کو بھلے ہی پسند نہ ہوں یا پھر اسے دیکھ کر کسی کی چیخ نکل جاتی ہو لیکن چین کے باشندوں کے لیے یہ کمائی کا ذریعہ ہے۔
ممکنہ طور پر طبی خصوصیات کے حامل ہونے کے باعث لال بیگ چینی صنعت کے لیے کاروبار کے نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔
چین کے ساتھ کئی ایشیائی ممالک میں کاکروچ کو تل کر کھایا جاتا ہے لیکن اب چین میں ان کی بڑے پمیانے پر افزائش کی جا رہی ہے۔
چین کے شیچانگ شہر میں ایک دواساز کمپنی ہر سال 600 کروڑ کاکروچ کی افزائش کرتی ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق ایک عمارت میں ان کی افزائش کی جا رہی اور اس عمارت کا رقبہ تقریباً دو کھیل کے میدانوں کے برابر ہے۔
وہاں الماریوں کی پتلی قطاروں میں انھیں پالا جاتا ہے اور ان کے لیے کھانے اور پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔عمارت میں اندھیرا رکھا جاتا ہے اور ماحول میں مصنوعی گرمی اور رطوبت برقرار رکھی جاتی ہے تاکہ یہاں کیڑوں کو گھومنے اور تولید کی سہولیات فراہم رہیں۔انھیں سورج کی روشنی سے دور رکھا جاتا ہے اور انھیں اس عمارت سے باہر نہیں جانے دیا جاتا ہے۔مصنوعی انٹیلیجنس کے نظام کے ذریعے کاکروچ کی افزائش پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے عمارت میں درجہ حرارت، خوراک کی دستیابی اور نمی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
اس کا مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کاکروچ پیدا کرنا ہے۔
جب کاکروچ بڑے ہو جاتے ہیں تو انھیں کچل دیا جاتا ہے اور شربت کی شکل میں اس کا چین میں روایتی انداز میں دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کا استعمال قے، دست، پیٹ کے زخم، سانس کی تکلیف اور دیگر بیماریوں کے علاج میں کیا جاتا ہے۔شانڈانگ ایگریکلچر یونیورسٹی کے پروفیسر اور انسیٹٹیو ٹ ایسوسی ایشن آف شانڈانگ کے ڈائریکٹر لیو یوشینگ نے دی ٹیلیگراف اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعی 'وہ ایک کرشمائی دوا ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا: 'وہ کئی بیماریوں کا علاج ہیں اور دیگر دواؤں کے مقابلے میں وہ زیادہ تیزی کے ساتھ اثر کرتے ہیں۔'پروفیسر لیو کہتے ہیں کہ بڑی عمر والوں کی زیادہ آبادی چین کا مسئلہ ہے۔ ہم لوگ نئی ادویات تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ مغربی ممالک کی ادویات سے سستی ہوں گی۔'ادویات کے لیے کاکروچ کی پیداوار سرکاری منصوبوں کا حصہ ہے اور ہسپتالوں میں اس سے بننے والی دواؤں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔لیکن بہت سے لوگ اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ بیجنگ کے چائنیز اکیڈمی آف میڈیکل سائنس کے ایک محقق نے اپنا نام نہ شائع کرنے کی شرط پر ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا: 'کاکرروچ کا شربت بیماریوں کا علاج نہیں ہے۔ یہ تمام بیماریوں پر کرشمائی انداز میں اثر نہیں کرتا ہے۔'انھوں نے کہا کہ اس طرح کیڑوں کی ایک بند جگہ میں پیداوار خطرناک ہو سکتی ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنس کے پروفیسر جھو کیوڈانگ کہتے ہیں کہ 'اگر انسانی غلطی یا پھر زلزلے کی وجہ سے اربوں کاکروچ باہر آ جائیں، تو یہ تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
(بی بی سی)