تعاون اور اچھے ہمسائیگی کے 5 سالہ ایکشن پلان کا آغاز

18 ویں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے اعلامیے میں دنیا کے ممالک کو درپیش مسائل میں جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے کثیر الجہتی رجحان کے باعث پائی جانے والی بے یقینی کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ چین کے سیاحتی مقام چھنگ ڈائو میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان اور بھارت نے پہلی مرتبہ بطور مکمل رکن شرکت کی۔ اس بار پاکستان کی جانب سے صدر مملکت ممنون حسین نے ملک کی نمائندگی کی۔ جبکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی مکمل رکن ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اس اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس میں دونوں ممالک میں تعاون کے حوالے سے خصوصی توقعات کا اظہار کیا گیا۔ رکن ممالک میں اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر مملکت ممنون حسین کو کانفرنس میں خطاب کیلئے دعوت دئیے جانے پر آگے بڑھ کر ان کا خیرمقدم کیا اور انہیں روسٹرم تک ساتھ لے کر گئے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی رکن روس اور چین علاقائی سطح پر امن و خوشحالی کیلئے خصوصی دلچسپی کے ساتھ ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں جزیرہ نما کوریا میں امن و سلامتی کے حوالے سے شمالی کوریا اور امریکہ کے صدر کے درمیان مذاکراتی عمل میں ہر قسم کی مدد کی پیشکش بھی کی گئی۔ کانفرنس میں جاری کردہ اعلامیے کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے عالمی تجارت میں تقسیم پیدا کرنے والے اقدامات کی مخالفت کی گئی اور عالمی اقتصادی نظام میں نظم و ضبط کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ کانفرنس میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کی سطح پر رکن ممالک کے درمیان آئندہ مزید تعاون کے لئے ا قدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کانفرنس میں پانچ سالہ ایکشن پلان کے حوالے سے دستاویز پر دستخط کئے گئے جس کا مقصد رکن ملکوں کے درمیان اچھے ہمسائیگی کے ضمن میں معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ رکن ممالک میں شنگھائی جذبے کی روشنی میں ایک دوسرے کے ملکوں کی سلامتی کے احترام ، اقتصادی خوشحالی اور عوام کی سطح پر تہذیب و ثقافت کے تبادلے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ ایس سی او کے زیر اہتمام چھنگ ڈائو میں ہونے والی اس18 ویں کانفرنس میں3.1 ارب آبادی کے ممالک کی نمائندگی دنیا بھر کی اقوام کیلئے خاص توجہ کا مرکز بنی رہی۔ چین کے ہمسائے میں واقع بھارت، پاکستان افغانستان اور ایران علاقائی سلامتی کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کانفرنس میں جہاں دوسرے امور پر سیرحاصل بحث کی گئی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے مسائل بھی بطور خاص اس کانفرنس میں زیر بحث لائے گئے۔ کانفرنس میں تجویز پیش کی گئی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایک دوسرے کے ممالک میں مداخلت پر پابندی کے اصول پر سختی سے عمل کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اتفاق رائے سے عالمی ادارے میں معاہدے کے لئے کوشش کی جائے۔ کانفرنس میں اس ا مر پر بھی تشویش ظاہر کی گئی کہ کچھ ممالک یا ا ن سے وابستہ بلاک تنہا انٹی میزائل سسٹم پر تجربات کر کے کسی پابندی کو خاطر میں لائے بغیر علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ بن رہے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور افغانستان کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون اور عوام کے عوام سے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اپنے افغان ہم منصب اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں کیا۔ یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان کو ایک آبزرو سٹیٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ صدر شی نے مزید کہا کہ چین اور افغانستان کے درمیان قدیم روایتی دوستانہ تعلقات ہیں اور افغانستان کے ساتھ ان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا چین حکومت کی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو چاہئے کہ حکومتی اداروں، قانون ساز اداروں، سیاسی جماعتوں، مسلح افواج کے علاوہ عوامی سطح پر تعاون اور رابطے بڑھائیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر شی نے کہا کہ چین افغانستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے امداد جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کو انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانا چاہئے۔ اور چین افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان حکومت کی مدد جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے سیاسی استحکام اور دیرپا امن کی چابی ’’افغان لیڈر۔ افغان اونڈ‘‘ سیاسی مصالحتی پراسیس میں موجود ہے۔ اشرف غنی کی طرف سے طالبان کے ساتھ امن کے قیام کے لئے اقدامات خصوصاً حالیہ عارضی جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے صدر شی نے کہا کہ چین مسئلہ افغانستان مذاکرات کے ذریعے حل اور مصالحتی پراسیس کی حمایت جاری رکھے گا۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے 18 ویں شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر چینی صدر شی چن پنگ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے مزید ترقی کا باعث بنے گی۔
افغان صدر اشرف غنی نے چین کی اقتصادی اور سماجی ترقی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے۔ خصوصاً افغانستان میں امن کے قیام کے لئے چینی حمایت قابل تحسین ہے۔ افغانی صدر نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ سمیت علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے چین کے تمام اقدامات اور تجاویز کا خیرمقدم کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے کا خواہشمند ہے۔
(ژینہوا نیوز)

ای پیپر دی نیشن