رعایت اگر کسی شخص کو دینی ہو تو اس کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔ مگر ہماری حکومتوں کو نجانے کیوں بھارت پر بھارتی حکمرانوں پر بہت پیار آتا ہے۔ وہ ان کی جلی کٹی سننے کے باوجود دھمکیوں اور الزامات کے باوجود ان کی راہوں میں بچھے بچھے جاتے ہیں۔ صرف گزشتہ ماہ کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں۔ بھارتی حکومت کا ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک منہ سے جھاگ اڑاتا پاکستان کے خلاف بولتا نظر آتا ہے۔ کوئی ایک گولی کا جواب سو گولیوں سے دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی ایک اور سرجیکل سٹرائیک کی بات کرتا ہے۔ کوئی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان واپس لینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایک بھی منہ ایسا نظر نہیں آتا جس سے شعلہ نہ نکل رہے ہوں۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چھوڑیں بھارتی فوج کے سربراہ بھی اس تھرڈ کلاس بیان بازی کا حصہ بنتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی بے سروپا بھڑکیں لگا کر پاکستان کیخلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے اور بار بار ہمیں سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پچھلے اور موجود دور حکومت میں اس شد و مد سے ہو رہا ہے کہ پاکستان کو بھی اس کا جواب دینا ضروری ہو گیا ہے۔ بالا کوٹ ڈرامہ میں انڈیا ائیر فورس 2 طیارے گنوا چکی۔ بھارتی فوج کو اپنی حربی صلاحیتوں کا پول کھلنے کے بعد کچھ چپ سی لگی ہے۔ مگر مودی اور ان کے وزرا کی زبانیں اسی طرح آگ اگل رہی ہیں۔ حکومت پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے ہر موقع پرمصالحت کی راہ اپنائی ، نرم لہجے میں جنگی جنوں کی مخالفت کی۔ دوستی اور امن کی اہمیت صرف اجاگر نہیں کی حملہ آور جنگی قیدی ابھی نندن کو ایک روز بعد رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود بحسن خوبی بھارت واپس بھجوا دیا۔ وہ بھی ایسے کہ اسے ہاتھ تک نہ لگایا گیا۔ مہمان کے طور پر رکھا اور کھلا پلا کر واپس کر دیا۔
ان باتوں کو شاید مودی سرکاری نے پاکستانی حکومت کی کمزوری سمجھا اور پاکستانی حکومت کے خلاف چڑھائی جاری رکھی۔ وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے ہر فورم پر نہایت تدبر اور مہارت سے مسئلہ کشمیر سمیت ہر مسئلہ پر بات چیت اور مذاکرات کی راہ اپنانے پر زور دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بھارت ایک قدم بڑھائے ہم دو قدم بڑھائیں گے مگر بھارتی انتہا پسندوں کے گھیرے میں بیٹھے شدت پسند بھارتی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے پاکستان کی طرف سے آنے والی امن کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اب ایک بار پھر پاکستان کی حکومت نے بھارتی ہٹ دھرمی اور مخاضمانہ پالیسیوں کے باوجود بھارتی وزیر اعظم کو شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے لیے بشکیک جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے کر ثابت کیا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے ا ور وہ امن و آشتی کی راہ پر چلتا ہے۔ حالانکہ اس وقت پاکستانی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت پر بھرپور جنگی جنون سوار ہے۔ ا نتہا پسند ہندو اور شدت پسند جنونی بی جے پی کی حکومت کو پاکستان کیخلاف ایکشن لینے پر مجبور کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود پاکستانی حکومت نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ گرچہ کشمیری اور پاکستانی عوام کی بڑی تعداد مودی کے طیارے کو پاکستان سے گزرنے کی اجازت دینے پر ناخوش ہے مگر اس سے ہماری پرامن پالیسی دنیا پر عیاں ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا بشکیک میں پاکستانی وزیر اعظم سے مودی کی کسی قسم کی ملاقات کے امکان تک کو مسترد کرتا چلا آ رہا ہے جس سے بھارت کی خباثت عیاں ہوتی ہے۔ بس اب بہت ہو چکا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بھارت سے دوستی اور محبت کے سراب سے نکلتے ہوئے بھارت سے دوٹوک الفاظ میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے دبائو ڈالنا ہو گا۔ عالمی برادری کو بھرپور طریقے ے آگاہ کرنا ہو گا۔ یہ مسئلہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے۔ لاکھوں کشمیری اپنی آزادی کی جنگ میں جان کی بازی لگا چکے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر مکمل فوجی چھائونی میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ جہاں 7 لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ پاکستان کی ایسی نرم پالیسیوں کی وجہ سے ان کشمیریوں کی دلآزاری ہوتی ہے۔ اب یہ سلسلہ ترک کرنا ہی بہتر ہو گا۔ کشمیریوں کے قاتلوں سے کسی قسم کی دوستی کی امید عبث ہے۔ ہم لاکھ ببول یا کیکر کے پودے کو دودھ سے سینچیں اس پر گلاب نہیں لگ سکتے۔ اس وقت حکومت پاکستان اپنے سفارتخانوں کو عالمی سطح پر بیدار کرے کہ وہ کشمیریوں کے حق میں مہم چلائیں ، وہاں ہونے والے قتل عام ، کشمیریوں کی نسل کشی اور ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو بیدار کرے تاکہ بھارت پر دبائو بڑھایا جا سکے۔ امن پالیسیاں اپنی جگہ بھارت کی مذمت اپنی جگہ۔ یہ کشمیریوں کی زندگی اور موت کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ اس سے کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں دنیا بھر میں بھارتی مظالم بہرصورت بے نقاب کرنا ہوں گے…