نظام تعلیم کا حقیقی چیلنج

کالونیل ازم نے اِن خطوں کو تقریََبا ایک ہی طرح سے متاثر کیا غلامی کی تاثیر ایک جیسی ہی ہوتی ہے جس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں آج تک موجود چلے آ رہے ہیں۔ بیرونی آقاؤں نے ہمارے نظام و نصاب تعلیم کو اِسی لیے تہہ و بالا کیا تھا کہ اْن کے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے اندر غلامی کے اثرات موجود رہیں۔آج اپنے نظام تعلیم کے ذریعے ہمارے سامنے کوئی ایسا ہدف نہیں ہے کہ ہم اچھے انسان یا اچھے مسلمان بن سکیں ، ہدف ہے تو صرف یہ کہ ہم اچھے انگریز یااچھے مغربی بن جائیں۔اِس لیے ہمارے سامنے اہداف کی اولین ترجیح یہ نہیں ہے کہ سکول سے باہر 25ملین بچے سکولوں میں کیسے جائیں ،تعلیمی بجٹ کو دوگنا کیسے کیا جائے، اگرچہ اِن چیزوں کی اہمیت ہے لیکن ثانوی،کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم کو اپنی تہذیبی اورفکری بنیادوں پر استوار کریں۔ قومی سطح پر دوبارہ جی اْٹھنے کے لیے راستہ نظام تعلیم ہی کے ذریعے نکلتا ہے۔ ایسانظام تعلیم جس کا نصاب ہمارے اپنے تصور علم اپنے ورلڈ ویو اوراپنی تہذیبی بنیادوں پر استوارہو ، جو ہماری نسلوں کو ہماری ثقافت اور ہمارے نظریے کے ساتھ جوڑدے۔جو اپنی زبان میں سوچنے ، سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔
اْس زبان میں جس میں ہم د عا مانگتے ہیں ، جس میں ہم خواب دیکھتے ہیں ،وہ زبان جو ہمارے شعور کی تعمیر کرتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہو گا کہ شعور کی تعمیر سے زبان کا کیا تعلق ہے اور یہ کہ اجنبی زبان شعور کی تعمیر نہیں کر سکتی ،اجنبی بنا کر رکھ دیتی ہے۔
اقوام متحدہ سمیت اب بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مادری زبان ہی میں ابتدائی تعلیم دی جانی چاہیّے تاکہ بچے کے ماحول کی زبان میں پہلے ا س کے شعور کی تعمیر ہو اور ا س کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کی نشوونما ہو۔ اگر کسی خطے میں ایک سے زیادہ مقامی بولیاں ہوں تو ابتدائی تعلیم اسی مقامی زبان میں بہم پہچانے کے بعد اِسی خطّے کی اْس زبان میں تعلیم اور نصاب تعلیم ہونا چاہیّے جو تمام طبقوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے جسے lingua franca کہا جاتا ہے جیسے ہمارے ہاں تمام صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان یعنی قومی زبان اْردو ہے۔ ملکی سطح پر کیونکہ اْردو ہر جگہ سمجھی جاتی ہے اس لیے یہ مقامی اور مادری زبان ہی کی طرح قبولیت اختیار کر چکی ہے۔اْردو میں ملکی سطح پر ایک نصاب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک قوم کا تصور مستحکم ہو سکے۔
ہم انگریزی زبان کے مخالف اور ناقدنہیں کیونکہ آج کی جدید دنیا میں اِس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا تمام نصاب ہی انگریزی میں مرتب کر لیں۔ اِس احمقانہ کوشش کو کسی بھی طرح ترقی کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ دنیا کی تمام قوموں نے تعلیم کے ذریعے جو بھی ترقی کی ہے وہ اپنی قومی زبان ہی میں کی ہے۔اِس لیے انگریزی کو ایک مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اِس کو قومی زبان کی جگہ دے دینا نہ صرف یہ کہ قومی سطح پر احساس کمتری پیدا کرتاہے بلکہ یہ کوشش علمی و تعلیمی عمل کے کسی مقصد کو بھی پورا نہیں کرتی سوائے اِس کے کہ بچے رٹا لگا لگا کر امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ لہٰذا انتظامی اصلاحات کرنے سے پہلے فکری و نظریاتی اصلاحات کے چیلنج کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر موجودہ حکمران اِس چیلنج کو سمجھنے کا شعور رکھتے ہیں تو پھر ہماری بھی ذمہ داری یہی ہے کہ کرنے کے اس اہم کام کی طرف توجہ مبذول کروادیں۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن