ریفرنس بنیادی حقوق سے متصادم‘ مقصد جسٹس فائز کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے: امان اللہ کنرانی

Jun 13, 2019

اسلام آباد‘ کوئٹہ (خصوصی رپورٹر + آئی این پی) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے عدالت عظمیٰ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو آئین کے بنیادی حقوق سے متعلق آرٹیکل 10A/25سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل کا مقصد وفاقی اکائی بلوچستان کے فرزند کو چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا موقع نہ دینا ہے جس سے ہم بلوچستان کو ان کے جائز حق نمائندگی سے محروم رکھنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ کوئٹہ پریس کلب میں بلوچستان بارکونسل کے وائس چیئرمین حاجی عطاء اللہ لانگو، بلوچستان بار کونسل کے ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین راحب خان بلیدی ،کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی، سینئر نائب صدر اقبال کاسی ،نائب صدر کرم خان بازئی ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر انوار کاکڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو داخلی وخارجی خطرات کا سامنا ہے لیکن ادارہ جاتی رویوں کو اپناتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ باہمی تنازعات اور تضادات کو کم کرنے کی بجائے مفروضوں کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائرکردہ ریفرنس پر جہاں پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پہل کرتے ہوئے 30مئی کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں متفقہ طورپر 14جون کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا بلکہ ریفرنس کی مذمت بھی کی۔ بعد ازاں پاکستان بار کونسل ملک بھر کے وکلاء تنظیموں ،صوبائی بارکونسلز ،ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز نے بھی 14جون کو احتجاج اور عدالتوں کے بائیکاٹ وہڑتال کا باضابطہ اعلان 8جون کو کیا۔ انہوں نے کہاکہ 7جون 2019ء کو بلوچستان کی وکلاء تنظیموں نے اپنے اجلاس میں سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے 14جون کو دھرنے کا اعلان کیا ہے جس کی میں نے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی حیثیت سے حمایت کا اعلان کیا ہے بلکہ 14جون کو سپریم کورٹ اسلام آباد کے سامنے دھرنے سمیت ملک بھر میں عدالتوں سے بائیکاٹ اور احتجاج کیا جائے گا۔ بلوچستان کے وکلاء بھی مذکورہ احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے صبح 9بجے سے نماز جمعہ کے وقفہ کے ساتھ ریفرنس کی سماعت کے حتمی فیصلے تک دھرنا دینگے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں جج کے کردار کو زیربحث نہیں لایا جاسکتا ہے نا ہی حکومت جج کی تقرری ،برطرفی اور اس کے خلاف آڈٹ کرسکتی ہے کیونکہ جج سول سرونٹ یا عوامی عہدے کے حامل افراد کے زمرے میں نہیں آتے ہیں ،ان قانونی تحفظات کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایف بی آر ٹیکس ریٹرن کو انکم ٹیکس کے قانون کے متعلقہ دفعات کی روشنی میں جائزہ لیںگے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے سپریم کورٹ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ بار کی جانب سے اختر حسین شاہ کوا علی عدلیہ میں ججز کی تقرری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار نے متفقہ قرارداد کے ذریعے ججز کیخلاف ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ریفرنسز واپس لے، امجد شاہ کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بغیر کسی دبائو کے ریفرنسز پر فیصلہ کرے، حکومت نے بار کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جس کی مذمت کرتے ہیں غیر منتخب وکلا کو سامنے لایا جا رہا ہے وکلا بار کے بجائے ہوٹلوں میں کیوں پریس کانفرنس کرتے ہیں وکلا کے ہوٹلوں کے بل کون دیتا ہے سب جانتے ہیں پاکستان بار کونسل نے 14 جون کی ہڑتال کی توثیق کر دی ہے۔ امجد شاہ کا کہنا تھا کہ صدر اور سیکرٹری سپریم کورٹ بار نے انفرادی حیثیت میں بیانات دیئے ہیں ، یہ اختلافات سامنے لانے کا نہیں دل بڑا کرنے کا وقت ہے، وکلا کے تمام منتخب نمائندے پاکستان بار کے فیصلوں میں ساتھ کھڑے ہیں۔ اعتزاز احسن ‘ علی احمد کرد سمیت تمام قیادت پاکستان بار کیساتھ کھڑی ہے۔ ججز کیخلاف ریفرنس سازش ہے جس کیخلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بلوچستان کے نائب صدر سید سلیم اختر ایڈووکیٹ ودیگر نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو چند مفاد پرست عناصر سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ملک کے تمام اداروں میں خود احتسابی کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ تاکہ قاضی فائز عیسیٰ و دیگر پر لگائے گئے الزامات کا درست یا غلط ہونے سے متعلق معلوم ہوسکے۔

مزیدخبریں