تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما۔ سردار عبدالرب نشترؒ

Jun 13, 2020

شاہد رشید

تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما سردار عبدالرب نشترؒ 13 جون 1899ء کو پشاور کے محلہ رام پورہ‘ کُوچہ کاکڑاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا گھرانہ مذہبی تھا۔ اسلامی ماحول‘ صوم و صلوٰۃ کا پابند۔گھرانے کے اس مذہبی ماحول کا اثر نشترؒ صاحب کے ذہن پر بہت گہرا ہوا۔انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے‘ اُس دوران اُن کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ چنانچہ لائسنس ملتے ہی انہوں نے پشاور میں وکالت شروع کردی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دورانِ قیام بھی اُن کی صلاحیت کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ زندگی کے ابتدائی پچیس برسوں میں‘ یعنی زمانۂ عنفوان شباب میں اُنہیں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے عظیم رہنمائوں کی مصاحبت و رفاقت حاصل رہی۔ سامراج دشمنی اُن کے خون میں تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں اِن بزرگوں کے اثر سے دو آتشہ ہوگئی۔ وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست کا شوق بھی پیدا ہوا۔ خداداد صلاحیت پہلے سے موجود تھی۔ حالات اور ماحول نے اسے جلا بخشی۔ انہوں نے ہمیشہ جب بھی قدم اُٹھایا‘ اُس سے مسلمانوں کو بالخصوص فائدہ ہی پہنچا۔ اُن کی کسی حرکت اور اقدام سے کبھی کسی مسلمان فرد اور مسلم قوم کو گزند نہیں پہنچا۔ نوجوانی میں تحریکِ خلافت میں عملی شرکت سے انہیں اُن مسائل سے آگاہی حاصل ہوئی جو مسلمانانِ ہند کو درپیش تھے اور مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے ظاہری اور پوشیدہ رویوں کا بھی اچھی طرح علم ہوگیا۔
1929ء میں پہلی مرتبہ حکومتِ ہند نے صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا ۔ سردار عبدالرب نشترؒ خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ 1937ء کے انتخابات کے بعد‘ جو دسمبر 1936ء میں ہوئے تھے‘ سردار عبدالرب نشترؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رُکنیت اختیار کی اور پہلی بار مارچ 1937ء میں دہلی میں منعقدہ مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں باقاعدہ شرکت کی۔ جنوری 1944ء میں سردار عبدالرب نشترؒ کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ (ورکنگ کمیٹی) کا رُکن بنایا گیا۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت میں مسلم لیگ نے اپنے جو پانچ نمائندے عبوری حکومت میں شمولیت کے لیے نامزد کیے ان میں سردار عبدالرب نشترؒ بھی شامل تھے۔ لیڈروں کی اُس کانفرنس میں جس نے 3 جون 1947ء کا منصوبہ تیار کیا تھا‘ لارڈ مائونٹ بیٹن نے 33 صفحات کی ایک دستاویز ہر جماعت کے رہنما کو دے دی تھی۔ اس کا عنوان تھا: ’’تقسیمِ ہند کے انتظامی نتائج‘‘۔ اس دستاویز کی رو سے ایک ’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ مقرر کردی گئی جس کے ارکان سردار پٹیل‘ راجندر پرشاد‘ لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشترؒ اور صدر مائونٹ بیٹن تھے۔ جب صوبوں نے تقسیم کا فیصلہ کردیا تو یہ کمیٹی پارٹیشن کونسل بن گئی۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان ہندوئوں اور انگریزوں کی مسلسل اور شدیدمخالفت کے باوصف وجود میں آیا۔ حصولِ آزادی کے وقت سردار عبدالرب نشترؒ غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ میں بھی اِسی منصب پر کام کرتے رہے۔ وزارت اور مختلف کمیٹیوں کی صدارتی ذمہ داریوں اور اسمبلی کی فعال اور سرگرم رُکنیت کے علاوہ نئے ممالک کو پیش آمدہ شدید مسائل بالخصوص ہجرت اور فرقہ وارانہ فسادات کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی سردار نشترؒ پیش پیش تھے۔ تحریکِ پاکستان کو عام مسلمانوں کے دل کی آواز بنادینے میں نشترؒ صاحب کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
پنجاب کے سرکردہ مسلم لیگی لیڈروں کی باہمی آویزش کی وجہ سے یہاں گورنر راج قائم کردیا گیا تھا لیکن گورنر سر فرانسس مودی پر بھی اعتراضات وارد ہونے لگے تو اُن کی جگہ سردار عبدالرب نشترؒ کو 2 اگست 1949ء کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا۔ پنجاب میں یہ پہلے مسلمان اور پاکستانی گورنر تھے۔ انہوں نے گورنری کی پہلی تمام روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بالکل نئی روایات قائم کیں۔ وہ شام کو ہر روز گورنر ہائوس سے باہر سیر کیلئے نکل جاتے تھے۔ چھابڑی والے پہچان کر سلام کرتے تو مسکرا کر جواب دیتے۔ لوگ اُن کو دیکھ کر جمع ہوجاتے اور اُن کے سامنے اپنی شکایات پیش کرنے لگتے۔ سردار عبدالرب نشترؒ اُن کی شکایات بڑے صبر اور غور سے سنتے۔ ممکن ہوتا تو اُسی وقت حکم جاری کردیتے یا اُن سے کہہ دیتے کہ کل گورنر ہائوس آجانا اور میرے سیکرٹری سے کہہ دینا کہ رات کو نشترؒ صاحب سے مال روڈ پر ملاقات ہوئی تھی۔ سردار نشترؒ کی دیانت اور امانت کا یہ حال تھا کہ اپنے بیٹوں کو سرکای گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ معمولی سائیکل پر سکول اور کالج آتے جاتے تھے۔ 1951ء میں خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے تو اپنی کابینہ میں سردارعبدالرب نشترؒ کو وزیرِصنعت مامور کر دیا ۔16اپریل 1953ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ ہی اُن کی کابینہ بھی ازخود برطرف ہوگئی جس میں سردار عبدالرب نشترؒ بھی شامل تھے۔ وزارت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کے بعد سردار نشترؒ نے اب کے بکھرے ہوئے مخلص کارکنوں کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور جگہ جگہ جا کر اپنی پُرزور خطابت کے جوہر دکھائے اور اپنے دل کا درد لوگوں کے سینوں میں منتقل کیا۔ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے بھی اُن کی دیانت و صداقت کے کتنے ہی واقعات مذکور ہیں۔
سردار عبدالرب نشترؒنے قوم کی خاطر اپنی گھریلو زندگی اور اپنے بچوں کی آسودہ حالی کی بھی پروا نہیں کی تھی۔ شدید بیماری میں بھی اُن کی شرافتِ نفسی اور اخلاقی قدروں میں ذرا بھی فرق نہ آیا تھا۔13جون1999ء کو ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں سردار عبدالرب نشترؒ کا صد سالہ یوم ولادت منایا گیا۔ تقریب کی صدارت جناب مجید نظامی نے کی اور اس میں صوبہ کے پی کے سے ممتاز مسلم لیگی رہنما سید صابر شاہ مہمان خاص تھے ۔ اس وقت سے ابتک ہر سال باقاعدگی سے مرحوم کا یوم ولادت منا کر ان کی حیات وخدمات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
٭٭٭٭

مزیدخبریں