ایسی ویسی باتیں سبھی دل سے نکال دے

ایک وکیل صاحب تھے ،چند روز قبل ہم انہیں بارروم اور احاطہ سیشن کورٹ میں ہنستا مسکراتا اور زندگی سے بھر پور لطف اندوز ہوتے دیکھ رہے تھے۔کئی دوستوں سے بلاتکلف گلے بھی ملتے تھے اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ بھی کرتے ،کرونا وباء کو محض ایک سازش سمجھتے تھے مسلمانوں اور دیسی معاشرے کے خلاف ۔پھرایک ہفتہ قبل اطلاع ملی کہ اچانک وفات پاگئے ہیں۔تجسس پیداہوا تو معلوم پڑا کہ کرونا کی بلاء کاشکار ہوکر گھر بار،دوست احباب اور بچوں کوبلکتا چھوڑ کریہ فانی دنیا چھوڑ گئے ہیں۔اب اگر پریشانی میں مبتلا ہیں تو وہ سب وکلاء صاحبان جن سے وہ گلے مل کر اور مصافحہ کرکے محبت کااظہار کیاکرتے تھے۔جس روز ان کے انتقال کی خبرملی اسی روز ایک اور سینئر وکیل صاحب بھی دارالمکافات کو کوچ کرگئے۔دیکھتے ہی دیکھتے بارروم ویران اور سیشن کورٹ سنسان ہوگیا،یہی حال قبرستان کا تھا کئی ایک کو نہ ان کایاراتھا اور نہ اجتماعی دعا کیلئے وقت۔مرحومین کی بے کسی اور لواحقین کی بے بسی بھلائے نہیں بھولتی۔کرب وبلا کے اس و قت میں مرحومین سے اظہار تعزیت کیلئے چند روز بعد گوجرانوالہ بار کے کمیٹی روم میں ایگزیکٹو کمیٹی کے دس بارہ ممبران کا اجلاس بلایا گیاتو بار کے ہردلعزیز دوست ساتھی اور سینئر وکیل میاں رفیق آرائیںکی وفات کی خبر اجلاس سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔بڑے ملنسار غم گسار اور دوستوں کے دوست انسان تھے۔صاحب حیثیت،گورے چٹے،ہنس مکھ،باریش اور خوبصورت وخوب سیرت انسان تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔تعزیتی اجلاس شروع ہواچاہتا تھا کہ صدر بار محسن یعقوب بٹ نے سرپکڑ لیا اور یہ منحوس خبر دی کہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی بارکے ایک اور رکن نصیر ہرل بھی کرونا سے شکست کھاگئے ہیں۔ابھی ایگزیکٹو کے اجلاس کے بعدان کے جنازے پر بھی جاناہے ۔سب کی طبیعت مضمحل ہوگئی۔دن بھر کوئی ویرانی سی ویرانی رہی ۔ہمارے سیشن کورٹ میں خداکی قدرت کا شکار ایک انتہائی دیدہ زیب برگدکابڑا سا درخت ہے،انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بھی ،اس درخت کے اندر ایک اور درخت کھجورکا اگا ہوا ہے،بہت بلند وبالا جس کی جڑیں برگدکے درخت میں ہیں۔ایک ہی تنے پربرگداور کھجورکے دودرخت دیکھ کر اس کی قدرت کے کارخانے کے عجائبات دیکھتے ہوئے میں دیر تک وہاں کھڑے ہوکر ان کو تکتا ہوں اور طبیعت کی شادابی کاسامان حاصل کرتا ہوں،لیکن آج اس نظارے میں بھی کوئی جاذبیت نہ تھی ،بس دوستوں کے بچھڑنے کا غم اور اداسی ۔آغازمیں ایک صحت مند،رعنا اور مرنجاں مرنج قسم کے وکیل مظفرخاں کی موت نے اطلاع دی کہ کرونا وائرس سیشن کورٹ پہنچ چکا ہے ۔احتیاط کی ضرورت ہے ،مگر کچھ دوستوں نے اس لئے احتیاط نہ کی کہ وہ اسے امریکہ،اسرائیل ،برطانیہ ،بل گیٹ کے فائیو G،مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش گردانتے ہوئے ہسپتال جاناگوارہ نہ کیا۔اگر کسی نے جانے کا ارادہ کیابھی کچھ تو ستم ظریفوں نے خبردار کیاکہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر زہر کے ٹیکے لگاکر فی لاش 3900ڈالر لے رہے ہیں ۔اورحکومت جان بوجھ کربندے ماررہی ہے تاکہ دنیا سے امداد لی جاسکے۔ایک جملے نے سب دوستوں کے صحت یابی کے دروازے بند دیئے کہ ـ"کوئی کرونا شرونا نہیں ہے ۔موت ایک ہی دن آنی ہے "بار کے ممبران اشرف چیمہ ،نذیر چوہدری،اسرارالحق چیمہ ،میاں محمد طارق،حافظ منیر احمد مغل ،مرزا انتظار بیگ ،مشتاق چیمہ،امان اللہ چوہدری ،شفیق کھوکھر اور محمد صدیق میں سے کئی ایک دوست احباب کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے ۔حفاظتی تدابیر پر ابھی بھی عمل نہیں ہورہا اور سازشی تھیوریاں بھی اس طرح چل رہی ہیں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔اوپر سے ٹوٹکوں کی بھر مار ہے ۔لگ بھگ ایک ماہ قبل ریاض رندھاوا ایڈووکیٹ کرونا کاشکار ہوکر اپنے جیون ساتھی کی تلاش میں یہ دنیا چھوڑ گئے ،جوان سے تین دن پہلے اسی موذی مرض سے اللہ کوپیاری ہوچکی تھیں ۔بہت افسوسناک واقعہ تھا ،مگر سبق آموز بھی کہ ایک ہی گھر سے تین دن میں دوجنازے اٹھائے گئے۔یہ انکشاف بھی ہواکہ رندھاوا صاحب اپنے محلے کی مسجد کے امام کی روزانہ ٹانگیں دباکر محبت اورعقیدت کا اظہار کرتے تھے۔امام صاحب کو کرونا تھا جس کا شائد انہیں علم نہیں تھا اور امام صاحب بھی اس دنیا سے جاتے جاتے کم وبیش سات آدمیوں کو موت کا پروانہ پکڑاگئے افسوس اس بات پر زیادہ ہواکہ ان میں سے کسی نے بھی موت سے قبل اپنا کوئی میڈیکل ٹیسٹ نہیں کرایا۔"کوئی کرونا شرونا نہیں ہے ایسے ہی بات بنی ہوئی ہے"کہتے کہتے اپنی جانیںدے دیں اپنے بچوں اورلواحقین کو عمر بھر کاروگ دے گئے۔چند یوم قبل داتا دربار کے ایڈمنسٹریٹربھی اس مرض کے ہاتھوں عدم آباد کو سدھار گئے ۔جب دربار کھلے ہوں گے تو غرض مند بھی آئیں گے اور حاجت مند لوگ اتنی عاجزی سے درباروں میں التجا کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گردوپیش کاکچھ علم نہیں ہوتا ۔اب دربار کھل گئے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ذات سب کو محفوظ رکھے۔بار میں سب سے پہلے چوہدری دائود گوپے را اور چوہدری اختر ایڈووکیٹ صاحبان کو کرونا کی شکائت لاحق ہوئی ۔ایک صاحب ہسپتال سے تو دوسرے قرنطینہ سنٹر سے مکمل صحت یاب ہوکر بارروم میں آئے تو دوستوں نے صحت یابی پر ان کو مبارکباد دی اور ہسپتال وسنٹر کے تجربات پوچھے تومعلوم ہواکہ کرونا سے زیادہ افواہوں کاراج ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ تندہی سے کام کررہا ہے کھانے کاکوئی مسئلہ نہیں وقت پر دوائی دی جاتی ہے ۔پوچھابھائی کوئی مشورہ توانہوں نے کہا کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھواور افواہوں کوجوتے کی نوک پر۔ساحرلودھیانوی یادآگئے
ایسی ویسی باتیں سبھی دل سے نکال دے
جینا ہے توکشتی کو دھارے پرڈال دے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...