لداخ میں چینےبھارت کو ناکوں چنے چبوا دئیے

بھارتی’ اخبار بزنس اسٹینڈرڈ ‘ کی ایک پورٹ کے مطابق پیپلز لیبریشن آرمی چائنہ کے 5000 فوجی پانچ جگہوں سے لداخ میں گھس آئے ،گیلون دریا کے ساتھ سے چار جگہوں سے اور پینگونگ ندی کے ساتھ ایک جگہ سے۔۔۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ معمول کا فوجی تنازعہ نہیں ہے اور نہ ہی 2013 ئاور 2014 ء کی طرح متنازعہ علاقے پر چین کا عارضی قبضہ ہے بلکہ اس دفعہ پیپلز لیبریشن آرمی ان علاقوں میں اپنے مضبوط دفاع کیلئے مورچے بنا رہی ہے اور بڑی گاڑیاں یہاں لے آئی ہے اور انکے دفاع کیلئے پیچھے ہیوی آرٹلری پہلے سے موجود ہے۔ انڈین آرمی کے منتوں ترلوں کے باوجود پیپلز لیبریشن آرمی اب بھارتیوں کے ساتھ تنازعات پر بات چیت کیلیے فلیگ سٹاف میٹنگ بھی نہیں کر رہی۔دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی ہے جب دنیا کے کسی ملک نے چین کی اس کارروائی کے خلاف بھارت کے حق میں بیان نہیں دیا ہے اس موجودہ صورتحال میں بھارت کی بے بسی کہا جاسکتا ہے کہ وقت پڑنے پر امریکہ اور اسرائیل بھارت کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرکے بھاگ جائیں گے اور اب وہی ہو رہا ہے ۔کیونکہ مودی نے امریکی صدر ٹرمپ پر خاصی سرمایہ کاری کررکھی تھی اسے گمان تھا کہ وہ خطے میں جو چاہئے کرے امریکہ کی اسے مکمل تائید حاصل رہے گی۔ بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کو راشن اور اسلحہ پہنچایا لیکن اب وہ بھی ضائع ہوتا نظر آرہا ہے ۔نیو دہلی کے بند کمرے کے اجلاس میں مودی کو اپنے حکومتی اداروں کی جانب سے خاصی تنقید برادشت کرنا پڑی ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارتی سیکورٹی مشیر اجیت دیوول کو بھی خاصی پشیمانی کا سامنا رہا ۔بھارتی جارحانہ عزائم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کوسبوتاژ کرنے کیلئے ہیں،’’ ہندو بنئیے‘ کو ہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے اب سنجیدہ بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ بھارت کو چینی افواج کے اندر گھس جانے کے باوجود سانپ سونگھ گیا ہے انتہائی خفیہ رپورٹس کے مطابق بھارت گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کی پوری تیاری میں تھا۔ جس کا مقصد گلگت بلتستان پر قبضہ کر کے سی پیک روٹس کو کاٹنا اور گلگت میں تعمیر ہو رہے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر رکوانا تھا اس کام کیلئے بھارت کو امریکہ ، اسرائیل کی پشت پناہی ہے۔ پاک چین دوستی زندہ باد پاکستان کی پیشگی مدد کرنے ، سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو ناپاک بھارتی عزائم سے تحفظ دینے کیلئے چین نے باوجود اس کے کہ امریکہ کے ساتھ بھی کشیدگی اپنے عروج پر ہے پھر بھی بھارت کے اندر فوجیں گھسا دیں۔ بھارت کے مذموم توسیعی عزائم کو بھانپتے ہوئے چین نے بھی نہ ان علاقوں میں صرف فوجیں گھسا دیں بلکہ نئی پوزیشنوں پر بنکرز بھی بنا ئے جارہے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ چینی افواج اب پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول لداخ ریجن بھارت کیلئے پاکستانی گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا مختصر ترین اور واحد راستہ تھا جس پر اب خوفناک ڈریگن آ بیٹھا ہے اور بزدل بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ وادی گلوان میں چینی فوج کے قابل ذکر تعداد میں خیمے دیکھے جا سکتے ہیں، جس کے باعث بھارت نے اس علاقے کی کڑی نگرانی شروع کر دی ہے۔ دونوں ملکوں کے اس جارحانہ رویے کی وجہ درہ لیپولیکھ کو ملانے والی سڑک کی تعمیر پر نیپال کیساتھ بڑھتی کشیدگی ہے۔ بھارتی آرمی چیف منوج موکنڈ نے چین کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے ایک بیان میں نیپال کے اعتراض کو کسی اور کی شہ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ دراصل چین بھارت کی یہ جنگ اب صرف اسی صورت میں ٹل سکتی ہے اگر بھارت پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم سے باز آ جائے۔ پاک فوج وطن کو درپیش دفاعی اور سلامتی کے چیلنجز سے آگاہ ہے اور وہ ہر محاذ پر درپیش خطرات کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان جنگ میں پہل نہیں کرے گا لیکن پھر بھی اگر دونوں ممالک کے درمیان روایتی جنگ ہوئی تو اختتام ایٹمی جنگ پر ہوگاجس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ہماری افواج ہمہ وقت بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کیلئے تیار ہے۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں‘ اسکے مختلف اوقات میں درجن بھر جاسوس ڈرون گرا کر پاکستان نے اپنی طاقت اور تیاری ثابت بھی کی ہے جبکہ 27 فروری 2019ء کا واقعہ بھی زیادہ دور نہیں جب اسکے دو جہاز گرا کر اسکے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا گیا تھا‘ بعدازاں خیرسگالی کے جذبے کے تحت اسے بھارت کے حوالے کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن