چوہدری نثارعلی خان کی اہل کلرسیداںسے بے پناہ محبت

کلرسیداں جند برس قبل تک ملک کے طول وعرض میں معروف تھا تو اس کی واحد وجہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کی اہل کلرسیداںسے بے پناہ محبت تھی وہ اسے وفا شعار لوگوں کی سرزمین کہا کرتے تھے وہ پر دو ماہ بعد کلرسیداں آتے اور ہربار کروڑوں کے ترقیاتی منصوبے دے کر جاتے ہیں انہوں نے جب بھی کوئی اہم بات کرنا ہوتی تو اسلام آباد کی بجائے کلرسیداں ا کر کرتے ان کا ہر دورہ شام کو ٹی وی چینلز کے مباحثوں کی وجہ بن جاتا ان کی ذاتی دلچسپی سے کلرسیداں بائی پاس بنا روات سے کلر سیداں سڑک دورویہ ہوئی کلر سیداں کے دونوں کالجز کی عمارتیں بنیں نئے سکولز تعمیر ہوئے کلرسیداں شہر کا سب سے دیرینہ مسئلہ زیرزمین پانی کا میٹھا نہ ہونا تھا جس کے مستقل حل کے لیئے تحصیل گوجرخان سے کلرسیداں تک میٹھے پانی کی لائن بچھا کرشہریوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت میسر کی گئی وہ پر تقریر میں اپنے ہر ساتھی کو عام غریب نادار اور میلے کپڑے پہنے والوں کا خاص خیال رکھنے کی تلقین کرتے تھے اس دور کی خاص بات یہ تھی اداروں میں جواب دہی کا خوف موجود رہتا جس کی وجہ سے عام لوگوں کی مشکلات کم جاتی تھیں اداروں میں بھی مسائل کے حل کے لیئے سنجیدگی کا رویہ اپنایا جاتا یہ چوہدری نثار علی خان ہی تھے جنہوں نے کلرسیداں پولیس کو ایک نہیں تین گاڑیاں مہیا کر رکھی تھیں ایک موبائل کے علاؤہ دو زیرومیٹر ڈالے کلر سیداں پولیس کو میسر تھے انہوں نے 2016 میں کلرسیداں میں ریسکیو 1122 کی سہولت مہیا کی تھی کلر سیداں کو نئی فائر بریگیڈ اور ایمبولینس سروسز فراہم کی گئی تھیں اور پھر اس کے بعد کلر سیداں گوشہ گمنامی میں دھکیل دیا گیا نئے پاکستان کی تشکیل میں ایک نیا حلقہ تشکیل پایا جس میں کئی دھاہیوں سے مری کے حلقہ انتخاب میں موجود کلرسیداں کے قانون گو مرکز چوآخالصہ کی چھ یوسیز کو وہاں سے نکال کر
گوجرخان کے حلقہ سے منسلک کردیا گیا اور قانون گو حلقہ کلرسیداں کو مری کے حلقے میں شامل کردیا گیا الیکشن میں ہما نے صداقت علی عباسی کا چناؤ کیا جو وزارت میں نہ ہونے کے باوجود کلرسیداں کو وقت نہ دے سکے پی ٹی آئی کی حکومت معرض وجود میں آتے ہی کلرسیداں پولیس کے پاس موجود تینوں گاڑیاں واپس لے لی گئیں اور ان کے بدلے میں ایک مظاہرے میں متاثر ہونے والی موبائل کلرسیداں پولیس کے حوالے کردی گئی جو خود کچھوے کی چال سے چلتی ہے اس زیادتی کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا گزشتہ برس کہوٹہ میں ریسکیو1122 کا افتتاح کیا گیا تو اس کے لیئے بھی کلرسیداں کو ہی قربانی کا بکرا بنایا گیا کلرسیداں سے ایمبولینس سٹاف اور دیگر سامان کو کہوٹہ منتقل کر کے وہاں ریسکیو سروس کا اجرا کیا گیا کلرسیداں کے لوگ کہوٹہ کو ملنے والی سہولت کے ہرگز مخالف نہیں مگر اس کے لیئے کلرسیداں کی قربانی لینا چنداں مناسب نہیں ہے کئی ماہ گزر گئے کلرسیداں کو اپنی ایمبولینس واپس ملی نہ سٹاف؟اس طرز عمل کو انصاف قرار نہیں دیا جاسکتا مریضوں کو راولپنڈی منتقلی کے لیئے کلرسیداں کو دی گئی نئی ایمبولینس راستے ہی اچک لی گئی اور وہ آج بھی کسی اور کے زیر استعمال ہے یقین مانیں اگر چوہدری نثارعلی خان کا زمام اقتدار ہوتا تو کوئی مائی کا لعل کلرسیداں سے روا اس ذیادتی کی جرات نہیں کرسکتا تھا مگر یہ سارا کچھ ان لوگوں کے اقتدار میں ہو رہا ہے جن کا نعرہ تھا کہ وہ نیا پاکستان تعمیر کریں کے زیادتیوں کا خاتمہ کریں گے عوام کو بہتر ریلیف دیں گے اب ضرورت اس امر کی ہے صداقت علی عباسی پہلی فرصت میں کلرسیداں کی دونوں نئی ایمبولینس گاڑیاں بلاتاخیر کلرسیداں واپسی کو یقینی بنائیں اورپولیس کو بھی اضافی گاڑیاں مہیا کی جائیں ورنہ ان کی اپنی نیک نامی متاثر ہو سکتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن