لاہور‘اسلام آباد‘ راولپنڈی(کامرس رپورٹر‘ نوائے وقت رپورٹ‘ اپنے سٹاف رپورٹر سے) کاروباری برادری نے بجٹ پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ماہراقتصادیات نے بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ حقائق پر مبنی نہیں بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا حکومت نے پیٹرولیم پر بجٹ سے قبل عوام کو 70ارب کا ریلیف دیا ہے۔پنجاب کی سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ان کو بجٹ کے حقائق پر مبنی ہونے پر شک ہے اگر بجٹ کے اہداف پورے نہ ہوئے تو عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پی ٹی آئی کے منشور کے برعکس ہے ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہے بجٹ تجا ویز مایوس کن ہیں ۔ایف بی آر کے لئے جو ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے اس میں سے صوبوں کو ادائیگی کے بعد وفاق دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پوری نہیں کر سکتا ہے۔حکو مت نے نان ٹیکس آمدنی بڑھانے کا کہا ہے اس کا مطلب ہے کہ دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ پٹرولیم لیوی بڑھے گی انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کو مسترد کر کے نیا بجٹ بنایا جائے جو کہ عوامی بجٹ ہو جو کورونا سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹے کی صلاحیت رکھتا ہو۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں انجم نثار، ریجنل چئیرمین ڈاکٹر محمد ارشد اور دیگر عہدیدراروں نے بجٹ پر ردعمل میں کہا کہ حکومت نے تاجر طبقے کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے نئے ٹیکس عائد نہ کرنے اور پہلے سے عائد ٹیکسوں میں کمی کا فیصلہ خوش آئند قرار دے دیا ہے۔میاں انجم نثار نے کہا کہ بجٹ کو نہ منفی نہ مثبت کہا جاسکتا ہے، تقریر سے تو ریلیف ملتا نظر آرہا ہے تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی اندازہ لگایا جاسکے گے۔کرونا وائرس کے باعث مشکل حالات میں بجٹ پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ پر صحیح طور پر ردعمل ایک دو دن کے بعد تفصیلات جاننے کے بعد ہی دیا جا سکے گا۔لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وفاقی بجٹ 2020-21پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کروناوائرس سے پیداشدہ صورتحال کے تناظر میں غیرمعمولی اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر عرفان اقبال شیخ نے سینئر نائب صدر علی حسام اصغر اور نائب صدر میاں زاہد جاوید احمد نے کہا ہے کہ اگرچہ حکومت نے ٹیکس فری بجٹ کے ساتھ چند اور اچھے اقدامات اٹھائے ہیں لیکن لاہور چیمبر کی جانب سے کیے جانے والے کئی مطالبات پورے نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مارک اپ کی شرح کم کرکے چار تا پانچ فیصد کی شرح پر لانا ضروری ہے۔ برآمدات بڑھانے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کسی حصوصی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ نقصان دہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز قومی خزانے پر بوجھ ہیں ، ان کے متعلق پالیسی وفاقی بجٹ کا حصہ ہونا چاہیے تھی۔ لاہور چیمبر ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات میں میں کمی اور حلال فوڈ و انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹرز کے لیے بھی خصوصی پالیسیوں کی توقع کررہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خام مال پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی، ٹیرف ریشنلائزیشن ، مینوفیکچررز کی طرف سے خام مال اور مشینری کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیوں کا خاتمہ اچھے اقدامات ہیں۔ پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی صدر اشرف بھٹی نے وفاقی بجٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں تاجر تنظیموں اور ایسوسی ایشنز کی تجاویز کو اہمیت نہیں دی ، شناختی کارڈ اور ود ہولڈنگ ٹیکس کو ختم نہیں کیا گیا ، تاجر طبقہ ریلیف کی امید کررہا تھا لیکن اسے مایوسی ہوئی ہے۔ اشرف بھٹی نے کہا کہ ٹیکسوں کی مد میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ، آڈٹ کے حوالے سے بھی مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے۔ تاجروں کا مطالبہ ہے کہ شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جائے لیکن حکومت نے اسے پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا ہے لیکن ختم نہیں کیا گیا ، آنے والے دنوں میں اس حوالے سے حتمی مشاورت کر کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکرٹری جنرل نعیم میرنے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں چھوٹے کاروبار کو نظرانداز کردیا گیاہے۔کروناکے تناظر میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جانی چاھئے تھی۔چھوٹے تاجروں کے لئے آسان قرضہ سکیم کا اجرا بھی نہیں کیا گیا۔ناقص حکومتی پالیسیوں نے 51 ارب ڈالر کی معیشت سکیڑ دی۔ ناکام حکومت کرونا کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے۔اگر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا تو بجٹ خسارہ 7 فیصد سے کم ہوکر 4.4 فیصد کیسے کریں گے۔ حکومت فائلر اور نان فائلر کا چکر چلا کر بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام سیکٹرز کو سہولت دی جانی چاہئے۔ فی کس آمدن کم ہوگئی، دکانوں پر ہْو کا عالم ہے۔ایف بی آر میں اصلاحات لانے کا اعلان بھی نہیں گیا گیا۔ کم سے کم ٹیکس آمدن کی حد چار لاکھ سے بڑھا کر آٹھ لاکھ روپے نہیں کی گئی۔ہم سخت مایوسی کا شکار ہیں۔تحریک انصاف ٹریڈرزونگ پاکستان کے صدر حاجی طاہر اور سیکرٹری اطلاعات میاں محمد ادریس نے بجٹ کو تاجر اور عوام دوست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان حالات میں اس سے اچھا بجٹ ہو ہی نہیں سکتا. ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان. اور حماد اظہر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔مرکزی تنظیم تاجران پنجاب کے صدر شرجیل میر نے کہا ہے کہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ تھا ہم سمجھتے تھے کہ بجٹ تاجر ریلیف اور تاجر دوست ہو گا ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ شناختی کارڈ کی سہولت کو فی الحال ختم کر دیا جائے، ہمارا مطالبہ تھا کہ چھ فیصد کو بنکنگ نظام سے ختم کرتے اس سے جہاں تاجروں کو سہولت ملتی وہی بنکنگ نظام کو تازہ ہوا ملتی آپ نوکریاں دینے آئے تھے لیکن حکومت نے نوکریاں چھین لیں اس لیے ہم اس بجٹ کو یکسر مستردکرتے ہیں حاں البتہ بجٹ میں تعمیراتی سیکٹر کو ریلیف دیا گیا، سرکاری ادارے جو سفید ہاتھی بن گیے ہیں انھیں گولڈن ہینڈ شیک دینا اچھا اقدام ہے قبل ازیں مرکزی انجمن تاجران راولپنڈی (رجسٹرڈ) کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں تاجر رہنماء چوہدری اقبال احمد، شیخ محمد صدیق، طاہر تاج بھٹی، طلحہ توقیر، میاں عمران صادق، شیخ آصف اکرام، فیصل شہزاد، زاہد عباس زیدی،چوہدری شوکت، یاسر مغل، فیصل عباسی، شیخ محمد بخش، چوہدری تنویر اسلم، سمیع خان، نادر خان، محمد فیروز، شیخ اکرام، کمال پاشا ودیگر شامل ہوے۔صدر اسلام آباد ایوان صنعت و تجارت محمد احمد نے کہا ہے کہ بجٹ خوش آئندہ ہے کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں کم کی گئی ہیں کاروبار دوست بجٹ پیش کیا گیا تھا کوئی نیا ٹیکس نہ لگانا خوش آئند ہے۔ بچوں کی درآمدی اشیاء پر مراعات دینا اچھا اقدام ہے۔ ٹیکس شرھ کم ہونا کاروباری افراد بہت بڑا ریلیف ہے۔صدر سرحد چیمبر آف کامرس مقصود انور نے وفاقی بجٹ پر ردعمل میں کہا ہے کہ بجٹ میں غریب عوام کیلئے کچھ نہیں بجٹ میں سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے 2018ء سے مسلسل ہمیں ترقی کے لحاظ سے ناکامی ہو رہی ہے۔