اسلام آباد(محمد نواز رضا ۔ وقائع نگار خصوصی) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے قومی اسمبلی میں 2020-21ء کے لئے 7294.9ارب کا دوسرا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے حکومت نے 5ہزار483ارب روپے مقامی ذرائع اور 2ہزار222 ارب روپے بیرونی ذرائع سے حاصل کرنیکا تخمینہ لگایا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی بار بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے مقابلے میں کم رکھا گیا ہے۔ مالی سال -21-2020 کے بجٹ کا حجم مالی سال20-2019 کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمیں تنخواہیں اور پنشن گزشتہ سال کی سطح پر برقرار رہیں گی۔ جوتے ‘کپڑے ‘ سیمنٹ ‘ مقامی موبائل سستے ہو گئے ۔آئندہ مالی سال سود اور قرضوں پر 2946ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اعلی تعلیم کیلئے64ارب ترقیاتی بجٹ کاحجم1324ارب، پی ایس ڈی پی کی مدمیں650ارب روپے۔طبی آلات کی خریداری کیلئے71ارب روپے،غریب خاندانوں کیلئے150ارب ایمرجنسی فنڈکیلئے100ارب مختص کیے ہیں۔ آزادجموں کشمیرکیلئے55ارب، گلگت بلتستان کیلئے32ارب، کے پی کے میں ضم اضلاع کیلئے56ارب، سندھ کیلئے19ارب اور بلوچستان کیلئے10ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔ سی پیک کے تحت منصوبوں کیلئے118ارب مختص کئے گئے ہیں آئندہ مالی سال میں 2 ہزار 2 سو 23ارب روپے کے غیر ملکی قرضے حا صل کیے جائیںگے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومتی آمدنی کا تخمینہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے محصولات کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی کی مد میں 1610 ارب روپے رکھا گیا ہے،قومی مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق صوبوں کو 2874 ارب روپے کی ادائیگی کرے گا جبکہ آئندہ مالی سال کیلئے وفاق کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ 3700 ارب روپے لگایا گیا ہے اور کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7137 ارب روپے لگایا گیا ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 3437 ارب روپے کا خسارہ ہے جو کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 7 فیصد بنتا ہے،بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس‘ ہوٹلز پر ٹیکس کم کر دیا گیا بھی سستے ہو گئے۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کریں تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے ۔ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے ۔ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم دکھتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے ،نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے،وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے ،پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے ،صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے ،احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا، ناقص پالیسیوں اور بد انتظامیوں کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جاپہنچا تھا۔انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب سے زائد کے نقصان کا سامنا تھا، اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرضے لیے گئے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔بجٹ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 20-2019 کا آغاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جس کے لیے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے، جس کی وجہ سے مالی سال 19-2018 کے مقابلے میں 20-2019 میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے ذریعے معاشی استحکام پیدا ہوا اس میں بجٹ اصلاحات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بند کیا گیا، اس کے علاوہ کوئی سپلمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی، ترقیاتی اخراجات میں حائل سرخ ٹیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی وزیر صنعت نے کہا کہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا آغاز کرکے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی۔انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کیے گئے،حماد اظہر نے کہا کہ ہمارے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کاروبار میں آسانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے اور انشااللہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں ڈال دیا گیااس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ ، ٹیرر فنانسنگ سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کے لیے نیشنل ایف اے ٹی ایف کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے۔ جامع قسم کی ٹیکنیکل اور قانونی اصلاحات شروع کی گئی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ نتیجتاً ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلے میں ہم نے قابل ذکر پیشرفت کی ہے، بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا اس کے معاشی اور سماجی مضمرات بھی سامنے آئے۔حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بھی کورونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا اور اس نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوشیں اور محنت کی تھیں اس آفت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے۔ طویل لاک ڈاؤن، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات متب ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، مالی 20-2019 کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل درج ہے تقریباً تمام صنعتیں، کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔جی ڈی پی میں اندازاً 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر منفی 0.4 فیصد تک رہ گئی۔مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا وہ 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے، وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا۔ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔حماد اظہر نے کہا کہ حکومت اللہ کے کرم سے اس سماجی اور معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے، اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثر کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش و بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 1200 ارب روپے سے زائد کے ریلیف پیکج کی منظوری دی ہے، مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی ہے جو درج ذیل کاموں کے لیے مختص ہے:طبی آلات کی خریداری، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ارب روپے ایک کروڑ 60 لاکھ کمزور اور غریب خاندانوں اور پناہ گاہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔200 ارب روزانہ اجرت کمانے والے مزدوروں، کیش ملازمین اور کیش ٹرانسفر کے لیے مختص کیے گئے50 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے مختص کیے گئے۔100 ارب ایف بی آر اور وزارت تجارت کے لیے مختص ہیں ۔مقامی طور پر تیار موبائل فون سستے کرنے کی تجویز دی گئی۔ تاکہ وہ برآمد کنندگان کو ری فنڈ کا اجرا کر سکیں100 ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کے لیے مختص کیے گئے وزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت کم از کم 30 لاکھ کاروبارکرنے والوں کے تین ماہ کے بل کی ادائیگی کے لیے 50 ارب روہے فراہم کیے گئے۔کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لیے 50 ارب کی رقم دی گئی۔100 ارب روپے ایمرجنسی فنڈ کے لیے مختص ہیں انہوں نے کہا کہ اس ریلیف پیکج سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینا پڑی، فنانس ڈویڑن نے متعلقہ اداروں خصوصاً احساس، این ڈی ایم اے، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے فنڈ کا انتظام اور اجرا کیا، ہمیں اداروں کے ریلیف پیکج پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں بجا لائی گئی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کسانوں اور عام آدمی کا احساس کرتے ہوئے ریلیف کے اقدامات کیے جس کے لیے انہیں خوراک اور طبی ساز و سامان کی مد میں 15روبے کی ٹیکس کی چھوٹ دی، 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے، پیٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی لیٹر کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی، ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا، پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا، معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا، آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا، کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا، ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے، ٹیکسز میں غیر ضروری رد و بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا، تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی، معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کْل ریونیو کا تخمینہ 6 ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4 ہزار 963 روپے ہیں اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے، حماد اظہر کا کہنا تھا کہ توانائی، خوراک اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لیے 180 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈیز کا رخ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز، 5 جی سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل، الیکٹرانک، پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا اور آر این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔قبل ازیں وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی اور موجودہ حالات کے تناظر میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جمعہ کو وفاقی کابینہ کا اجلاسزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی بھی منظوری دے دی۔ بعض کابینہ ارکان نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ پر زور دیا تاہم وزارت خزانہ نے موجودہ معاشی صورت حال کے پیش نظر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ سے انکار کر دیا ۔نمائندہ خصوصی کے مطابق بجلی کی مد میں سبسڈی دینے کے لئے 124ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ گذشتہ سال یہ رقم 201 ارب روپے تھی اس طرح بجلی کی سبسڈی میں 77ارب روپے کی کمی کر دی گئی ہے۔ نجکاری سے ایک سو ارب روپے حاصل کرنے کا حدف مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال میں جو اخراجات کئے جائیں گے۔ گیس ترقیاتی سرچارج 15.8ارب روپے ، قدرتی گیس کی رائلٹی پر 52.7ارب روپے، خام تیل کی رائلٹی پر 23.1ارب روپے منتقل کرے گی۔ سود کی ادائیگی کیلئے جو رقم مختص کی گئی ہے اس میں ملکی قرضوں کی سود کی ادائیگی پر 26.31ارب روپے اور غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی پر 315.1ارب روپے خرچ کرے گی۔ پنشن کے لئے 470 ارب روپے رکھے گئے ہیں اسمیں سے ریٹائر فوجیوں کی پنشن کیلئے 369 ارب اور سول کے لئے 111 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سبسڈیز کے لئے جو رقم مختص کی گئی ہے اس میں سے 124 ارب روپے واپڈا اور کیپکو کو دئیے جائیں گے اس رقم کی تقسیم میں ایک سو دس ارب روپے انٹر ڈسکو ٹیرف اور دس ارب روپے کے پی کے انضمام شدہ اضلاع اور ایک ارب روپے آزاد کشمیر میں ٹیرف میں فرق کی مد میں دئیے جائیں گے۔ کے ای اسی او کو 25.5 ارب روپے کی سبسڈی ملے گی ، یوٹیلٹی سٹو ر میں سبسڈی کی مد میں تین ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پاسکو کے لئے سات ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں سے ویٹ آپریشن کی مد میں دو ار ب روپے اور گندم کے محفوظ سٹاک کیل ئے پانچ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔اس بار فاٹا کو گند م کی فروخت کیلئے کوئی سبسڈی نہٰیں رکھی گئی۔ گلگت بلتستان کو گندم کی سبسڈی کے لئے چھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بھارتی فیسوں والے تعلیمی اداروں پر 100فیصد سے زائد ٹیکس اور ٹیکس دہندگان کیلئے سکول فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کر دی گئی۔ میڑو بس کی سبسڈی کیلئے دو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اینگرو اور فاطمہ کھاد پلانٹس کو چھ ارب کی سبسڈی دی جائئے گی ، نیا پاکستان کے لئے تیس ارب روپے دئیے جائین گے۔مسابقتی کمیشن کو پچیس کروڑ روپے ، پاکستان ریلوے کو اپنے نقصانات کی مد میں چار ارب روپے دئیے جائیں گے۔ پبلک پرائیوٹ شراکتی اتھارٹی کے لئے دس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو بتیس ارب کی گرانٹ دی جائے گی۔ بیت المال کو چھ ارب روپے۔ بی آئی ایس پی کیلئے دو سو ارب روپے ، پاکستان پوسٹ کو 3.5 ارب روپے گرانٹ دی جائے گی۔ این ڈی ایم اے کو پانچ ارب کی گرانٹ ملے گی۔
اسلام آباد (عترت جعفری) مالی سال 2020-21ء میں کسٹمز ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں 45 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دیا گیا ہے، درآمدی پولیسٹر، سٹیشنری اور دیگر 18 ٹیرف لائنز جس میں پانچ سو کے قریب آئٹمز شامل پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں مختلف شرحوں سے اضافہ کیا گیا ہے جبکہ سمگلنگ کے لئے پرکشش 166 ٹیرف کوڈ جن میں کپڑے، ایل ای ڈی ٹی وی پر ریگولیٹری ڈیوٹی مختلف شرحوں سے کم کر دی گئی۔ درآمدی سگریٹ، سگار پر فیڈرل ایکسایز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا، مقامہ اور درآمدی ڈبل کیبن گاڑیوں پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے ، فلٹر راڈ، الیکٹرک سیگریٹ کے ای لیکویڈ پر بھی 10 فی صد ڈیوٹی لگا دی گئی ہے ، تقویت دینے والے مشروبات کی درآمد پر 25فی صد ایکسائز ڈیوٹی ہو گی، ٹیکسز میں جو ریلیف دیا گیا ہے اس میں کسٹم ڈیوٹی کی مد میں پچیس ارب روپے اور سیلز ٹیکسز اور انکم ٹیکس کی مد میں 20ارب روپے کا ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ کسٹم کی مد میں جو اقدامات کئے گئے ہیں اس میں ٹیکسٹائل مشینری ، لیدر، کیمیکل ، ربر کے سیکٹر سے متعلق 1640 ٹیرف لائنز جن کا تعلق خام مال کی درآمد سے ہے ان پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کا ریٹ زیرو کر دیا گیا ہے۔ اس سے صنعت کو گیارہ ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔ اس کے علاوہ مختلف صنعتوں کے چالیس خام مال پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ قومی ٹیرف پالیسی کے تحت ہوم اپلائنسز اور لیدر سمیت نوے ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی گیارہ فیصد سے کم کر کے تین فیصد یا صفر کر دی گئی ہے۔ ایسے اشاعت کے ادارے جن کے پاس ان ہائوس پرنٹنگ کی سہولت موجود نہیں انہیں بھی قرآن کی چھپائی کے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی سے استثناء دے دیا گیا ہے۔ ہاٹ رولڈ کوائلز اور سٹیل کی مختلف اقسام پر ڈیوٹی 12.5 فیصد سے کم کر کے چھ فیصد اور 17.5 فیصد سے کم کر کے گیارہ فیصد کر دی گئی ہے۔ سرنجیز ،فوڈ پیکجنگ اور کیبل، سمیت مختلف صنعتوں کو رعائیتی شرح پر درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے۔ سرنجیز اور سیلائن انفیوژن سیٹس بنانے والوں کو بھی کسٹم ڈیوٹی سے استثناء د ے دیا گیا ہے ۔ بٹن بنانے والوں اور بوٹائل، ایسیٹیٹ کو بھی خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی کی چھوٹ فراہم کر دی گئی ہے۔ انٹر لائنگ اور بکرم کے خام مال کی درآمد کرنے والوں کی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ وائر راڈ بنانے والوں کے خام مال پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ریگولیٹری ڈیوٹی کو بھی واپس لے لیا گیا اور کسٹم ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کیبل لینڈنگ سٹیشن بنانے والوں اور اسی نوعیت کے دوسرے منصوبے چلانے والوں کے لئے مشینری کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری کی درآمد پر چھوٹ دے دی گئی ہے۔ بیوریجز کے خام مال کی درآمد پر بھی کسٹم ڈیوٹی کا استثنیٰ فراہم کر دیا گیا ہے۔ فوڈ پیکجنگ انڈسٹری کے تمام خام مال کی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ فنانس بل میں ایک ترمیم کے تحت کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے والے61 آئٹمز پر کسٹم ڈیوٹی کا استثناء دیا گیا تھا جس کے نوٹیفکیشن کی معیاد بیس جون کو ختم ہورہی تھی اب اس کی معیاد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح کرونا وبا کی وجہ سے کھانے کے تیل اور آئل سیڈ پر دو فیصد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کا استنثاء دیا گیا تھا جس کی معیاد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت بچوں کی خوراک جو پیٹ کی بیماریوں میں دی جاتی ہے ان کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ سرطان اور کرونا وائرس کی تشخیص میں استعمال ہونے والی کٹس پر بھی ڈیوٹی اور ٹیکسز کا استثناء دے دیا گیا ہے۔ سپلیمنٹری فوڈ ز جو فوری طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ان کے انپٹس پر کسٹم ڈیوٹی کا استثناء فراہم کر دیا گیا ہے۔ فاٹا میں نئی صنعتوں کے قیام کے لئے کسٹم ڈیوٹی کے استثناء کی معیاد کو 2023 ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔ پامز سٹیرن جو صابن بنانے کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے اس کی کسٹم ڈیوٹی میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ سیلز ٹیکس میں جو اقدامات کئے گئے ہیں ان کے تحت اس سے پہلے پچاس ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط تھی اس حد کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا گیا ہے۔ کورڈ 19 کے مقابلے کے لئے استعمال ہونے والے آلات پر جنرل سیلز ٹیکس کی معافی کی معیاد میں تین ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ جو پہلے بیس جون کو ختم ہورہی تھی ۔ کپڑے اور فیشن سٹورز جو ایف بی آر کے مربوط آن لائن سسٹم سے منسلک ہیں ان پر جنرل سیلز ٹیکس کا ریٹ چودہ سے کم کر کے بارہ فیصد کر دیا گیا ہے۔ آڈٹ کے زمرے میں الیکٹرانک ذرائع کے استعمال کا تصور متعارف کروایا گیا ہے۔ موبائل پالیسی کے تحت 350 ڈالر تک کے موبائل فون پر ٹیکس کا ریٹ زیرو کردیا گیا ہے اور سیلز ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے۔ قانون کے تحت گوادر پورٹ اور گوادر فری زون کو آرڈینسس کے تحت جو رعایت فراہم کی گئی تھیں ان کو فنانس بل کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ نادرا، ایف آئی اے صوبائی ایکسائز اینڈ ٹیکسشن ڈیپارٹمنٹ کو پابند کرد یا گیا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی کمپنیوں کو بھی پابند بنایا گیا ہے کہ ان کے پاس اصل استعمال کنندہ کا نام ہونا چاہیے۔ ورنہ جرمانہ کیا جائے گا۔ فیڈرل ایکسائز میں کچھ ریونیو اقدامات کئے گئے ہیں درآمدی سگار ، چیروٹس اور سگرری لیوس اور سیگرٹ کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 65فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کر دی گئی ہے ۔ فلٹر راڈز پر ڈیوٹی 0.75 سے ایک روپے فی فلٹر راڈ کر دی گئی ہے۔ الیکٹرک سیگریٹ کے ای لیکوڈ پر دس روپے فی ملی لیٹر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ تقویت دینے والے مشروبات جن میں ریڈ بل اور دیگر شامل ہیں ان کی درآمد پر پچیس فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ ڈبل کیبن 4*4 اگر درامد کی جائے تو اس پر پچیس فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوتی عائد ہو گی جبکہ مقامی طور پر تیار کر دہ پر 7.5 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ اس وقت دو روپے فی کلو ڈیوٹی لی جاتی ہے جس میں پچیس پیسے کی کمی کر دی گئی ہے۔ اس سے سیمنٹ کی بوری میں تیس روپے کی کمی واقع ہوگی۔ ایف بی آر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی صنعت کی کم از کم پیداوار کا تخمینہ کسی ایک ان پٹ کی بنیاد پر قائم کرے تاکہ ویسٹیج کا تخمینہ لگایا جاسکے۔ سیگریٹ اور بیوریجز سمیت ایسی تمام مصنوعات جن پر ایکسائز ڈیوٹی لگتی ہے وہ پکڑے جانے کی صورت میں ضبط کی جاسکتی ہے۔ انکم ٹیکس کی مد میں نو مختلف قسم کی ودہولڈنگ اور ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ایکٹو ٹیکس پئیر ہونے کی صورت میں جو بچوں کی تعلیم کے لئے بیرون ملک رقم بھیجی جاتی ہے اس پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے اب یہ صرف نان فائلر پر لگے گا۔ سٹیل میٹلز پر سیکشن 235b کے تحت ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مختلف تقریبات اور شادی ہالز میں ہونے والی تقریبات پر ایڈوانس ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ کیبلز آپریٹرز پر اور دیگر الیکٹرانک میڈیا پر ایک ایڈوانس ٹیکس لگایا گیا تھا جسے واپس لے لیا گیا ہے منڈیوں کے آڑھتیوں اور کمشن ایجنٹس پر ایڈوانس انکم ٹیکس لگایا گیا تھا۔ اسی طرح انشورنس پریمیم پر ایک ایڈوانس ٹیکس لگایا گیا تھا جسے واپس لے لیا گیا ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس ایجنٹ بننے کے لئے حد کو پانچ کروڑ سے بڑھا کر دس کروڑ کر دیا گیا ہے۔ پراپرٹی سیکٹر میں ایک اہم تبدیلی کی گئی ہے پلاٹس یا تعمیر شدہ جائیداد پر اس سے پہلے سارا کیپیٹل گین ٹیکس ایڈوانس میں لیا جاتا تھا۔ اب جائیداد اگر اقساط پر فروخت کی گئی ہے تو قسط کے حجم کے اعتبار سے ایڈوانس ٹیکس لیا جائے گا۔ بیرون ملک سے ترسیلات پر جو مقامی کرنسی میں نکالی جاتی ہیں ان پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے اس سے پہلے 0.6 فیصد تھا۔ حج آپریٹرز پر نان ریذڈنٹ کے حوالے سے ودہولڈنگ ٹیکس لگا تھا جسے ختم کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں موٹر سائیکل اور رکشہ کے حوالے سے ایک غلط فہمی پیدا ہوئی تھی کہ ان پر ایڈوانس ٹیکس لگ گیا ہے اب فنانس بل میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ 200 سی سی قوت کے موٹر سائیکل یا رکشہ پر کوئی ایڈوانس ٹیکس نہیں ہے۔ پبلک لسٹڈ کمپنیوں کو پندرہ دن کے اندر استثناء کا سرٹیفکیٹ جاری ہو جائے گا۔ نان پرافٹ آرگنائزیشن پر انکم ٹیکس قانون کے تحت پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے ڈونر کی تفصیلات اپنے پاس درج کریں گے اور پوچھنے پر بتانا ہوں گی۔ ودہولڈنگ سٹیٹمنٹ ا ب سہ ماہی بنیاد پر داخل کرنا ہوگی۔ ایف بی آر کی چئیرمین نوشین جاوید نے میڈیا کو بریفنگ میں بتایا کہ سیمنٹ پر ہم نے جو رعائت دی ہے اس سے ہمیں تیرہ ارب کا نقصان ہوگا جبکہ سات ارب روپے نو مختلف ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے سے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے انہوں نے کہا کہ کرونا سے قبل ایف بی آر ریونیو کی گروتھ ستائیس فیصد تھی تاہم کرونا سے فرق پڑھا اگر کرونا ختم نہیں ہوتا تو ہمیں خرچے کم کرنا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا تنخواہ دار طبقہ کے لئے ٹیکس میںکوئی ردو بدل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا آئندہ مالی سال کے ٹیکس حدف کو پورا کرنے کے لئے انفورسمنٹ کو بہتر بنایا جائے گا۔ اگر یہ بہتر ہو جائے توا سے کافی ریونیو آسکتا ہے کیونکہ خام مال پر بہت سی رعایات دے دی گئی ہیں اس سے معیشت میں تیزی آئے گی رئیل سٹیٹ اور تعمیرات کو ترغیبات دی گئی ہیں توقع ہے کہ اس سے کافی بہتری آئی گی۔ انہو ں نے کہا کہ ڈاکٹر ز لیبز اور اس طرح کے دیگر شعبوں کو سسٹم کے اندر لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا سال کے آخر تک پندرہ ہزار سے زائد افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ درآمدا ت کو نرم کیا گیا ہے جس سے امید ہے کہ ان کی سطح پنتالیس ارب ڈالر تک جائے گی جس سے زیادہ ٹیکس بھی ملے گا۔