ماتم کدہ افلاک ہیں کیوں شورِ فغاں سے
یہ کون گیا رْوٹھ کے گْلزارِ جہاں سے
وہ وقت بھی انسان نے دیکھا ہے موذّن
افلاک لرز اْٹھتے تھے آوازِ اذاں سے
پھر بْلبیں شوریدہ سری پر ہوئیں مائل
گْلنار ہوئے جاتے ہیں گْْل شعلہء جاں سے
پھر لرزہ ہوا طاری محلّاتِ شہی پر
پھر پھْوٹ پڑا چشمہ خوں کوہِ گراں سے
کچھ بْت بھی مرے کعبہ ایماں میں بسے ہیں
مجھ کو تو غرض ہے نہ مکیں سے نہ مکاں سے
اِس عالمِ وحشت میں نہیں اپنی خبر بھی
جو دل تھا اْسے ڈھونڈ کے لاؤں میں کہاں سے
ہے آہوئے صحرا کی طلب جعفری مجھ کو
منزل مجھے مِل جائے گی قدموں کے نشاں سے
(ڈاکٹر مقصود جعفری )