سید شعیب شاہ رم
@shahramali
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل ملک کی وسیع تر نمائندہ حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے ،جس کی تفصیلات بتدریج سامنے آنے پر تمام شعبہ ہائے زندگی سمیت الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں لوگوں کے تاثرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ بزنس کمیونٹی نے اس بجٹ کو کیسے دیکھا اس سلسلے میں ہم نے بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سرفہرست رہنماؤں سے بات کی جنہوں نے بجٹ پر اپنے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان ( ایف پی سی سی آئی ) کے سابق صدر، بزنس کمیونٹی کے ممتاز رہنما اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کے صدر زبیر طفیل نے بجٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ جس میں کم آمدن والے افراد کیلئے ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ موجودہ ٹیکس میں کٹوتی کی گئی ہے۔ حکومت نے لگژری آئٹمز، گاڑیاں اور مہنگے موبائل فونز پر ٹیکس عائد کیا ہے جو کم آمدنی والے طبقے کی پہنچ سے دور ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ احسن اقدام ہے۔ زبیر طفیل نے نجی شعبے سے اپیل کی کہ وہ بھی ایک لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والے ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم 15 فیصد اضافہ کریں۔ مہنگی گاڑیوں اور مہنگے موبائل فون کی خریداری پر ٹیکس مناسب فیصلہ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں آئی ٹی اور فری لانسنگ آمدنی پر عائد ٹیکس کیلئے وہ ایسو سی ایشن کے سربراہوں سے رابطہ کرکے وزارت خزانہ کیلئے تجاویز مرتب کرائیں گے۔ بجٹ میں مختص شرح نمو پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے زبیر طفیل کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی ریکارڈ سطح پر ہے اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے باعث 5 فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ تاہم موجود حالات کو دیکھتے ہوئے 4 فیصد نمو بھی حاصل ہوجائے تو پاکستان مشکل حالات سے نکل جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی کیلئے مختص 7 ہزار ارب سے زائد روپے کا ہدف بھی حاصل ہوجائے گا۔ انہوں نے وزیر اعظم کی جانب سے گوادر میں گھر گھر سولر پینل دینے کے اعلان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس اقدام کو ملک کے مزید علاقوں تک وسعت دی جائے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت کے مدت پوری کرنے پر معیشت میں بہتری اور مالیاتی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان اپریل فورم کے چیئرمین اور بزنس مین گروپ کے نائب چیئرمین جاوید بلوانی نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی تفصیلات آنے کے بعد ہی تمام ابہام دور ہوں گے۔ ابھی حکومت کو اقتدار میں آئے دو ماہ ہوئے اس کیلئے بجٹ تیار کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ مہنگائی میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے، جبکہ حکومت کا مؤقف مہنگائی ختم کرنے کا تھا، اس وقت بجلی، پیٹرول اور گیس مہنگی ہے تو پیداواری لاگت کم کیسے ہوسکتی ہے۔ جاوید بلوانی کہتے ہیں کہ ٹیکس ہدف میں اضافہ کیلئے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے جس سے متعلق بجٹ میں کوئی خاطر خواہ اقدام موجود نہیں۔ ایکسپورٹ میں اضافہ کیلئے دی گئی تجاویز زیر غور ہیں۔ امید ہے کہ حکومت تجاویز پر عملدرآمد کرے گی۔ جاوید بلوانی کا مؤقف ہے کہ حکومت پیداواری لاگت میں کمی کرے تو ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن ہے لیکن اس کیلئے حکومت کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبہ کو درپیش چیلنجز کو نظر انداز کیا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے سرفہرست ملکوں میں شامل ہے جس کے براہ راست اثرات زرعی شعبہ پر مرتب ہورہے ہیں، وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈز میں 30فیصد کٹوتی باعث تشویش ہے۔ ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرکے ہنگامی بنیادوں پر زراعت کے شعبہ کو ترقی دی جائے ورنہ ملک کو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش رہے گا۔وحید احمد کے مطابق ملک کورواں سیزن موسمیاتی اثرات اور پانی کی قلت کی وجہ سے آم کی پیداوار میں پچاس فیصد کمی کا سامنا ہے اسی طرح دیگر بڑی فصلوں اور پھلوں سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے۔اس مد میںوفاقی بجٹ میں اضافہ کی ضرورت تھی تاہم حکومت نے بجٹ میں 30فیصد کمی کرکے اس کے فنڈ10ارب روپے کر دیئے ہیں۔ زرعی شعبہ کی لاگت میں اضافہ کسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے قومی سطح پر اہم اجناس اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر فصلوں کے بیج درآمد کیے جاتے ہیں روپے کی قدر میں کمی اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں دام بڑھنے سے بیجوں کی قیمت غیرمعمولی حد تک بڑھ چکی ہے اس کے ساتھ کھاد، زرعی ادویات، بجلی، زرعی مشینری کی لاگت بھی بڑھ چکی ہے۔ زرعی لاگت بڑھنے سے اجناس اور مقامی فصلوں کی قیمت بڑھ رہی ہے جو ایک جانب زرعی شعبہ کی آمدن میں کمی اور دوسری جانب مہنگائی میں اضافہ کاسبب بن رہی ہے۔ کھاد پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ تشویشناک امر ہے۔ زرعی شعبہ کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے خصوصی ریلیف پیکج کی ضرورت ہے تاکہ ملکی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ زرعی اجناس ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ وحید احمد نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ ملک میں طویل مدتی زرعی پالیسی تشکیل دی جائے جس کے تحت وفاق اور صوبوں کے وسائل اکھٹے کرکے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے زراعت کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ ملکی سطح پر ریسرچ کے ذریعے فصلوں کے جدید بیج تیار کیے جائیں جو موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرسکیں۔ وحید احمد نے زرعی جامعات میں کی جانے والی تحقیق کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے اور زرعی جامعات میں پڑھائے جانے والے نصاب کو بھی جدید بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ زرعی جامعات، زرعی تحقیق کے وفاقی اور صوبائی اداروں، نجی شعبہ اور پراسیسنگ انڈسٹری کو ہم آہنگ بنایا جائے اور آنے والے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے زراعت کے شعبہ کی قومی سطح پر طویل مدتی حکمت عملی وضح کی جائے۔