معاشی عدم استحکام ویسے تو کسی بھی ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن جب وہ ملک جوہری طاقت کا حامل ہو تو معاملات اور بھی سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے یکے بعد دیگرے بننے والی حکومتوں کی طرف سے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر عملی میدان میں ایسے اقدامات بہت کم دکھائی دیتے ہیں جن سے حالات میں کوئی سدھار لایا جاسکے۔ موجودہ حکومت کے پاس تو خیر وقت کم ہے اور ان کے پاس یہ جواز بھی موجود ہے کہ ہم سے پہلے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے جو معاہدہ کیا گیا تھا اس کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں لیکن جن کے پاس وقت زیادہ تھا انھوں نے بھی جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے اور ان سے پہلے بننے والی حکومتیں جو کچھ کرتی رہی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حزبِ اختلاف کا حصہ ہوتے ہوئے ہر جماعت عوام کے لیے ہمدردی اور خلوص کا اظہار کرتی ہے لیکن جیسے ہی اقتدار اس کے ہاتھ میں آتا ہے اس کے وابستگان اپنے تمام سابقہ بیانات اور تقاریر بھول کر وہی سب کچھ کرتے ہیں جو اقتدار کو طول دینے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ہی دیکھ لیجیے۔ وہ جب تک وزیر خزانہ نہیں بنے تھے عوام کے غم میں گھلے جارہے تھے اور بار بار حکومت سے قیمتیں کم کرنے، مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے مشورے دیتے تھے لیکن جب سے انھوں نے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے وہ وہی سب کچھ کہہ اور کررہے ہیں جو ان کے پیش رو کررہے تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مسائل اور معاملات کی سنگینی سے پہلے بے خبر تھے کیونکہ وہ قبل ازیں وزیر خزانہ، وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ اور معاونِ خصوصی برائے سرمایہ کاری رہنے کے علاوہ پبلک فنانس اور پولیٹیکل اکانومی کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں اور خود آئی ایم ایف سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ سو یہ بات تو چمکتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہے کہ مفتاح اسماعیل پہلے بھی پاکستانی معیشت کے مسائل سے بہت اچھی طرح واقف تھے لیکن وہ اس وقت حکومت کا حصہ نہیں تھے اس لیے عوام دوست بیانات کے ذریعے حکومت پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اب وزارتِ خزانہ کی سربراہی ان کے پاس ہے، لہٰذا ان کے بیانات ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔
ہفتے کے روز انھوں نے جو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی اس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کو انتظامی طور پر ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں چلے گی۔ کابینہ میں بیٹھے لوگ مراعات یافتہ ہیں مگر عام لوگ مراعات یافتہ نہیں۔ اگر سر ی لنکا جیسی حالت کریں گے تو قوم معاف نہیں کرے گی اور نہ ضمیر معاف کرے گا، اس لیے مشکل فیصلے لینے پڑیں تو لیں گے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چوائس نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ شاید اس بات سے واقف نہیں کہ عوام مشکل فیصلوں کے خلاف ہرگز نہیں ہیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ان فیصلوں کا بوجھ صرف عوام پر نہ ڈالا جائے۔ اگر کابینہ میں مراعات یافتہ لوگ بیٹھے ہیں تو ان کی مراعات ختم کرنا عوام کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ دکھ اگر بی فاختہ جھیل رہی ہیں تو پھر انڈے کووں کو کیوں کھلائے جائیں؟ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی سال 2021ء کی قومی انسانی ترقیاتی رپورٹ (این ایچ ڈی آر) کے مطابق، پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کا حجم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ ایک طرف ہم تقریباً ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کی منت سماجت کررہے ہیں اور اس کی ہر شرط ماننے کے لیے آمادہ ہورہے ہیں اور دوسری جانب اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کی مراعات دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال عوام کے لیے بے چینی و اضطراب کا باعث بننے کے علاوہ ملکی معیشت کے لیے بھی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی مذکورہ پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف بجٹ پر ناراض ہے، پندرہ روز تک بجٹ میں تبدیلیاں کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچیس لاکھ دکان داروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کے لیے فکسڈ ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، تمام سرکاری کمپنیوں کی نج کاری کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے یہ حقیقت بھی عوام کے سامنے رکھ ہی دی کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کی جاسکتی۔ مفتاح اسماعیل ویسے تو پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں لیکن ان کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ترجمان ہیں۔ بجٹ پر پہلے ہی ہر طرف سے اعتراضات ہورہے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط کو سامنے رکھ کر بنایا گیا۔ اگر اس پر بھی آئی ایم ایف خوش نہیں ہے تو پھر وزیر خزانہ کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف سے درخواست کریں کہ بجٹ دستاویز تیار کر کے بھیج دیں جسے کابینہ کے سامنے پیش کر کے وہ منظوری لے لیں گے۔
مفتاح اسماعیل کی یہ بات درست ہے کہ ملک کے جتنے وسائل ہیں اس کا 5 فیصد بھی استعمال نہیں کیا جا رہا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے یہ بھی بالکل ٹھیک کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش ماضی میں ہم سے پیچھے تھے لیکن ہماری بے انتظامی کی وجہ سے آج وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ ان کی اس بات کی صداقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے انتظامی امور میں بہتری نہ لائی گئی تو ملک کا چلنا مشکل ہے۔ لیکن بارِ دگر عرض ہے کہ ملکی وسائل کو ٹھیک طریقے سے استعمال کر کے مسائل پر قابو پانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، عوام کی نہیں۔ مفتاح اسماعیل اس وقت حکومت میں ہیں انھیں چاہیے کہ وہ وزیراعظم اور کابینہ سے کہیں کہ ملک کو صحیح راہ پر ڈالنے کے لیے وہ سب کچھ کریں جو انھیں موزوں لگتا ہے لیکن سارا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔ ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ذرائع ابلاغ کو حکومت کے مشکل فیصلوں پر مسلسل تنقید نہیں کرنی چاہیے مگر حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے سے قربانی لے کیونکہ یو این ڈی پی کی مذکورہ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ مراعات کے نام پر دی جانے والی رقم اتنی زیادہ ہے کہ اس کے ذریعے مسائل پر بآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی عوام مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ مسائل کا بوجھ بھی برداشت کررہے ہیں لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بوجھ میں سے حصہ بقدرِ جثہ اس طبقے پر ڈالے جو مراعات لے لے کر اس حد تک مضبوط ہوگیا ہے کہ اب وہ خود کو کسی قاعدے ضابطے کا پابند ہی نہیں سمجھتا۔ ملک کو معاشی عدم استحکام کی موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے محض عوام کی قربانیاں کسی کام نہیں آئیں گی کیونکہ عوام کو حکومت کی طرف سے ریلیف اور سبسڈی کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مشکل حالات میں سخت فیصلے کرنے ضروری ہیں تو ان کا بوجھ اس طبقے پر ڈالا جانا چاہیے جو زیادہ فائدے سمیٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ معیشت کو صرف تقریروں، بیانات اور دعوؤں سے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ طے ہے کہ اگر حکومت ایسے عملی اقدامات کرنے کے قابل ہو جاتی ہے تو پھر عوام کا جمہوری اداروں اور نظام پر اعتماد بھی بحال ہوگا اور وہ آئندہ انتخابات میں اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو دوبارہ مینڈیٹ بھی ضرور دیں گے۔
معیشت سدھارنے کے لیے دعوے نہیں، عملی اقدامات کیے جائیں
Jun 13, 2022