دنیا کی طاقت ور اقوام سے لے کر افریقہ اور ایشیا کے پسماندہ ممالک تک سب اس تنازع سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کی داستان زبان زدو عام ہے تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا کہ اسے ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت انتہائی چالاک اور منافقانہ پالیسی کا سہارا لے کر مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے تاہم بھارت کو اب اندازہ ہوگیا کہ کشمیر کوئی پلیٹ میں رکھا حلوہ نہیں، اب کشمیر میں آزادی کی تحریک نئے مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ تحریک میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شریک ہوچکی ۔ کشمیر میں قابض بھارتی فوجی محاصرہ قریباً دو سال سے جاری ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کے درندہ صفت مظالم 70برس سے جاری ہیں۔ نہتے کشمیریوں کی آئے روز شہادت خواتین کی بے حرمتی، بچے بچیاں شاید ہی کوئی کشمیری بھارتی فوج کے سفاک مظالم سے بچا ہو، کشمیریوں کی اپنی زمین تنگ اور گھروں کو قید خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ سرچ آپریشن کے دوران کشمیری نوجوانوں اور بچوں کا اغوامعمول بن چکا ہے۔ بھارتی افواج کے بد سے بدترین مظالم 18-17 سال میں دیکھنے کو زیادہ ملے۔جب بھارتی فوج نے آزادی اور اپنا حق خودارادیت لینے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے والے کشمیری مرد عورتوں، بچے بچیوں پر پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا جس کے چھرے لگنے سے سینکڑوں بچے بچیاں اپنی بینائی کھو بیٹھے انسانیت کو شرما دینے والے بھارتی فوج کے یہ مظالم کئی روز تک جاری رہے۔ پی پی نے افغانستان سے متعلق فیصلوں پر پارلیمنٹ کو آن بورڈ لینے کا فیصلہ کرلیا۔بھارتی آرمی کو فوج کہنا فوج کے نام پر دھبہ ہے، بھارتی فوج کا تربیتی اور پیشہ وارانہ معیار یہ ہے کہ وہ بوڑھے ، بچوں اور خواتین کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹتے ان کا سرِ عام قتل کرے ممنوعہ ہتھیار پیلٹ گن کا اندھا دھند استعمال کرے، بھارتی فوج کا بحیثیت فوجی ادارہ کوئی ڈسپلن کوئی پیشہ وارانہ تربیتی معیار اور قاعدے قوانین ہیں تو اس کا مظاہرہ کہیں تو نظر آئے۔ آفرین ہے مقبوضہ کشمیر کے ان باسیوں پر کہ جن کے جذبہ حریت اور حق خودارادیت دبانے کے لیے بھارتی فوج کے ہر طرح کے حربے اور وحشیانہ مظالم ناکام ہو گئے۔پاکستانی پرچم میں لپٹے کشمیری شہداءکے جنازے اور ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے کے نعروں سے گونجتی وادی نے انتہا پسند مودی اور بھارتی فوج کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور کشمیریوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کے علمبردار اور تنظیمیں کیوں اپنے سر بغلوں میں دبائے بیٹھے ہیں۔ کیا ان کی زبانوں کو بل پڑ گئے ہیں جو یہ چپ سادھے بیٹھے ہیں، اس پر حیرت ہے نہ افسوس کیونکہ مقبوضہ کشمیر نہ سوڈان ہے اور نہ ہی مشرقی تیمور.... اقوامِ متحدہ کے قیام 1945 سے لیکر اب تک دیکھا جائے تو اقوامِ متحدہ مخصوص ممالک کے مفادات اور ان کے تحفظ کے لیے اپنے قیام کے اغراض و مقاصد سے روگردانی کر چکی ہے خصوصاسلاتی کونسل.... جب کہ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی اور انسانی حقوق کی حفاظت اور ا±ن کے حصول کو ہر ممکن طریقہ سے یقینی بنانا تھا۔ جہاں تمام ممبر ممالک اپنے تصفیہ طلب معاملات زیر بحث لا کر اکثریت رائے سے انہیں حل کریں اور سیکورٹی کونسل کا کام دنیا کے کسی بھی جارح ملک کی ہر طرح کی جارحیت کو عملی طور پر روکنا ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین پامالی، کشمیریوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی۔ یہ سب دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا اور بے جان مذمتی بیان جاری کرنا، کیا اقوام متحدہ کا یہ منشور تھا؟ اب تو بھارت نے آرٹیکل 370-A35 کا خاتمہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں میں ایک متنازعہ اور تصفیہ طلب معاملہ ہے۔ پھر بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیسے ختم کر سکتا ہے؟ بھارت کس کے ایما پر یہ سب کچھ کر رہا ہے۔اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کی خلاف ورزی پر کیوں خاموش ہے؟ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ مغربی ممالک کے مفادات جڑے ہیں کیونکہ جنوبی ایشیاءمیں بھارت مغربی ممالک کے خطرناک ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے اور بھارت میں مغربی اور یورپی ممالک کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اس خاموشی کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ مگر یہ مثل بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اب کی بات اب کے ساتھ۔ جب کی بات جب کے ساتھ۔ اقوام عالم کو ہر صورت اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا پاکستان اور بھارت ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی قرادادوں میں تصفیہ طلب سنگین نوعیت کا تنازع ہے جس پر ماضی میں پاکستان اور بھارت 3 جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب اقوام عالم کس بات کی منتظر ہیں۔پاکستان کے صبر اور کمزوری کی بڑی وجہ صرف اور صرف خطہ کا امن ہے وگرنہ خدانخواستہ معمولی چنگاری بھڑکنے سے مغربی مفادات اور کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بلند و بالا مینار مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے۔ کشمیر کی آزادی تک قلم کی سیاہی خشک ہو گی نہ ہی تحریک آزادی کشمیر رکے گی۔