کئی برس عمران خان یہ کہتے آئے کہ میرے پاکستانیوں سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی قوم کو گھبراہٹ سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں "آئی ایم ایف کا معاہدہ اسی ماہ ہو جائے گا اگر اس میں تاخیر ہوئی تو قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ اللہ نے اس ملک کو بڑے وسائل سے نوازا ہے، کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔" جناب وزیر اعظم آپکا حکم یا مشورہ سر آنکھوں پر لیکن معزز وزیراعظم پاکستانی تو پہلے بھی نہیں گھبراتے تھے کیونکہ وہ تو مشکلات کے عادی ہو چکے ہیں۔ آپ نے سنا تو ہو گا کہ "مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں" سو پاکستانیوں کے لیے گھبرانے کا لفظ کچھ نیا نہیں ہے۔ جہاں ملک میں گھنٹوں گھنٹوں بجلی نہ آئے کھانا پکانے لگیں تو گیس چلی جائے، سفری سہولیات میسر نہ ہوں، ہسپتال میں دھکے کھانا پڑیں، بینک چلے جائیں تو ہر دوسری سیٹ پر ایک "ناک چڑھا" اہلکار موجود ہو جیسے احساس اور عقل سے عاری ہر دوسرے پولیس ناکے پر پولیس اہلکار ہوتے ہیں، جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، جعلی ادویات ہوں، فلٹر واٹر کے نام پر بھی گندا پانی ملے، دودھ کے نام پر کیمیکلز، گوشت کے نام پر نجانے کیا کچھ کھایا جائے۔ جناب وزیراعظم اس ملک کے لوگوں کو گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ انہیں گھبراہٹ صرف اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے سامنے طاقتور کو سب کچھ کرتے دیکھتے ہیں اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا لیکن عام آدمی دھوپ میں کھڑا خوار ہوتا ہے، بینکوں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے لوگ جن لوگوں کی وجہ سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں وہ باہر تپتی دھوپ میں طویل قطاروں میں کھڑے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ کوئی ایک شعبہ نہیں جہاں سے راحت ملے اور یہ سکون دیکھ کر عام شہری گھبراہٹ کا شکار ہو جائے کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ جناب وزیراعظم عام آدمی کو آئی ایم ایف کے معاہدے غرض نہ ہے اسے تو دوپہر کے بعد رات کے کھانے کی فکر ہے۔ کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کو ماہانہ کرایہ ادا کرنے کی فکر ہے۔ اس لیے جناب وزیراعظم کم آمدن والوں نے اتنی گھبراہٹ دیکھ لی ہے کہ ان کا ہر سانس ہی گھبراہٹ سے نکلتا ہے اور دہائیوں سے ایسا ہو رہا ہے۔ سو وہ نہ پہلے گھبرائے تھے نہ اب گھبرائے ہیں نہ آئندہ گھبرائیں گے۔ اصل گھبراہٹ تو اقتدار کے ایوانوں میں ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو کیا ہو گا۔
اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے روسی خام تیل بردار جہاز کے کراچی بندرگاہ پہنچنے پر کہا ہے کہ "قوم سے ایک اور وعدہ پورا کر دیا ہے۔ روس سے رعایتی خام تیل لے کر پہلا جہاز کراچی پہنچ گیا ہے یہ ایک انقلابی دن ہے۔خوشحالی، اقتصادی ترقی اور انرجی سیکیورٹی کی جانب ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں، یہ پاکستان کیلیے روسی تیل کا پہلا کارگو اور نئے پاک روس تعلقات کا آغاز ہے۔" یہ ایک اچھا اور خوشگوار اضافہ ہے پاکستان کو اپنے بہتر مفاد اور مستقبل کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔ روس پر سختیوں کے دوران بھی بھارت نے امریکہ کی روک ٹوک کے باوجود بڑی مقدار میں روس سے تیل خریدا اس لیے پاکستان کی اس خریداری پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ تجارت میں بہتر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ معاشی طور پر دباو¿ کا شکار ہیں ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے علاقائی تجارت اور مفاد کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ روس کا تیل آنا تاریخی لمحہ ہے لیکن اصل میں تاریخی لمحہ وہ ہو گا جب اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچے گا۔ تیل کی قخمتیں کم ہوں گی اور عام آدمی اس تاریخی کامیابی سے فائدہ اٹھائے گا۔
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہتے ہیں کہ "روس سے تیل کی فراہمی تسلسل کے ساتھ شروع ہوجائےگی تو قیمتوں میں فرق آئیگا۔ ہم اپنی ضرورت کا ایک تہائی خام تیل روس سے لینا شروع ہو جائیں گے تو قیمتوں میں بڑا فرق آئے گا اور اس کا اثر لوگوں کی جیب تک پہنچے گا، ہمارا ہدف ہے کہ ایک تہائی خام تیل رعایتی قیمت پر روس سے آئے، جب ہم اپنا ہدف حاصل کرلیں گے تو تیل رعایتی قیمت پر ہو گا، اصل قیمت اس وقت بتانا مشکل ہے تاہم اس سے بہت بڑا فرق آئے گا۔" یہ واضح رہے کہ حکومت نے ابتدائی طور پر روس سے ایک لاکھ ٹن تیل خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ چھ سے آٹھ ہفتے تسلسل کے ساتھ یہ عمل جاری رہتا ہے تو عام آدمی کو فرق پڑ سکتا ہے۔ حکومت کے لیے بڑا ہدف تیل کی اس تجارت کو جاری رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کرنا ہے۔
میئر کراچی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی آمنے سامنے ہیں۔ ایک دوسرے شدید زبانی حملے ہو رہے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہے دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی بھی کسی طور اس عہدے پر کوئی نرمی نہیں دکھا رہی۔ اس کشمکش کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں میں قوم کا کتنا درد ہے کہ وہ ہر حال میں قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور قومی خدمت کا کوئی بھی موقع حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں ورنہ جماعت اسلامی پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد ہرگز نہ کرتی۔ بہرحال یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان فیصلے کے وقت لڑکھڑاتے ہیں اور بعد میں ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ہارنا بھی نہیں چاہتے، ہارنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے اور جیتنے والے کو مبارکباد یا بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جتنی توانائیاں میئر کراچی کا عہدہ لینے پر ہے اس کا کچھ حصہ بھی ڈیلیور کرنے پر ہو تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
راولپنڈی سے خبر ہے کہ نان بائی ایسوسی ایشن نے روٹی بیس اور نان پچیس روپے میں فروخت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے چند روز قبل سو گرام روٹی کی قیمت پندرہ روپے اور ایک سو بیس گرام نان کی قیمت بیس روپے مقرر کی تھی تاہم اب نان بائی ایسوسی ایشن نے روٹی بیس اور نان پچیس روپے میں فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ مسئلہ صرف راولپنڈی کا نہیں ہے ملک بھر میں روٹی اور نان کی بڑھتی ہوئی قیمتیں پریشان کن ہیں۔ بالخصوص یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں دوسرے شہر ہوتی ہے وہاں کام کا ملنا نہ ملنا الگ مسئلہ ہوتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاءکی مسلسل بڑھتی قیمتوں نے اس طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ویسے تو اس مہنگائی سے ہر شخص متاثر ہوا ہے لیکن ان میں بھی ایک طبقہ ایسا ضرور پے جس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ حکومت کو اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں کمی اور اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔
آخر میں حفیظ جالندھری کا کلام
عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دشنام کا جواب نہ سوجھا بج±ز سلام
ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یا ضربتِ خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا پتھروں کو معرفتِ ذات ہو گئی
یارانِ بے بساط کہ ہر بازیِ حیات
کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی
بے رزم دن گزار لیا رتجگا مناو¿
اے اہل بزم جاگ اٹھو رات ہو گئی
نکلے جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام
ہر گام پر تلافیِ مافات ہو گئی
حدِّ عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب
ردِّ عمل بنی تو مکافات ہو گئی
اب شکر نا قبول ہے، شکوہ فضول ہے
جیسے بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی
وہ خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے
دربان ہی سے جس کی مدارات ہو گئی
ہر ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے
ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی
یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظ
یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی